Skip to content

The Poet Place Posts

تشنگی آنکھوں میں اور دریا خیالوں میں رہے

تشنگی آنکھوں میں اور دریا خیالوں میں رہے
ہم نوا گر، خوش رہے جیسےبھی حالوں میں رہے

اس قدر دنیا کے دکھ اے خوبصورت زندگی
جس طرح تتلی کوئی مکڑی کے جالوں میں‌رہے

دیکھنا اے راہ نوردِ شوق! کوئے یار تک
کچھ نہ کچھ رنگِ حنا پاؤں کے چھالوں میں رہے

ہم سے کیوں مانگے حسابِ جاں کوئی جب عمر بھر
کون ہیں، کیا ہیں، کہاں ہیں؟ ان سوالوں میں رہے

بدظنی ایسی کہ غیروں کی وفا بھی کھوٹ تھی
سوئے ظن ایسا کہ ہم اپنوں‌ کی چالوں میں رہے

ایک دنیا کو مری دیوانگی خوش آگئی
یار مکتب کی کتابوں کے حوالوں میں رہے

عشق میں دنیا گنوائی ہے نہ جاں دی ہے فراز
پھر بھی ہم اہل محبت کی مثالوں میں رہے

احمد فراز

Leave a Comment

عشق کے کشف و کرامات کی پابند نہیں

عشق کے کشف و کرامات کی پابند نہیں
میری مرضی ، میں کسی بات کی پابند نہیں

اپنے ہاتھوں کے اشاروں پہ چلاتی ہے ہمیں
زندگی حکم و ہدایات کی پابند نہیں

جن میں انسان کو کھا جائے فقط نام و نمود
ایسی فرسودہ روایات کی پابند نہیں

تیرے کہنے پہ چلی آؤں ، یہ امید نہ رکھ
میں ترے شوقِ ملاقات کی پابند نہیں

حبس بڑھتا ہے تو پھر رنگ سخن دیکھا کر
شاعری موسمِ برسات کی پابند نہیں

چھلنے لگتے ہیں مرے زخم سحر دم کومل
اب وہ وحشت ہے کہ جو رات کی پابند نہیں

کومل جوئیہ

Leave a Comment

تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں

تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں
ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں

کس کو خبر تھی سانولے بادل بن برسے اڑ جاتے ہیں
ساون آیا لیکن اپنی قسمت میں برسات نہیں

ٹوٹ گیا جب دل تو پھر یہ سانس کا نغمہ کیا معنی
گونج رہی ہے کیوں شہنائی جب کوئی بارات نہیں

غم کے اندھیارے میں تجھ کو اپنا ساتھی کیوں سمجھوں
تو پھر تو ہے میرا تو سایہ بھی میرے ساتھ نہیں

مانا جیون میں عورت اک بار محبت کرتی ہے
لیکن مجھ کو یہ تو بتا دے کیا تو عورت ذات نہیں

ختم ہوا میرا فسانہ اب یہ آنسو پونچھ بھی لو
جس میں کوئی تارا چمکے آج کی رات وہ رات نہیں

میرے غمگیں ہونے پر احباب ہیں یوں حیران قتیلؔ
جیسے میں پتھر ہوں میرے سینے میں جذبات نہیں

قتیلؔ شفائی

Leave a Comment

درد ہے کہ نغمہ ہے فیصلہ کیا جائے

درد ہے کہ نغمہ ہے فیصلہ کیا جائے
یعنی دل کی دھڑکن پر غور کر لیا جائے

آپ کتنے سادہ ہیں چاہتے ہیں بس اتنا
ظلم کے اندھیرے کو رات کہہ لیا جائے

آج سب ہیں بے قیمت گریہ بھی تبسّم بھی
دل میں ہنس لیا جائے دل میں رو لیا جائے

بے حسی کی دنیا سے دو سوال میرے بھی
کب تلک جیا جائے اور کیوں جیا جائے

داستاں کوئی بھی ہو جو بھی کہنے والا ہو
درد ہی سنا جائے درد ہی کہا جائے

اب تو فقر و فاقہ کی آبرو اسی سے ہے
تار تار دامن کو کیوں بھلا سیا جائے

پیرزادہ قاسم

Leave a Comment

کالی راتوں کو بھی رنگین کہا ہے میں نے

کالی راتوں کو بھی رنگین کہا ہے میں نے
تیری ہر بات پہ آمین کہا ہے میں نے

تیری دستار پہ تنقید کی ہمت تو نہیں
اپنی پاپوش کو قالین کہا ہے میں نے

مصلحت کہیے اسے یا کہ سیاست کہیے
چیل کوؤں کو بھی شاہین کہا ہے میں نے

ذائقے بارہا آنکھوں میں مزا دیتے ہیں
بعض چہروں کو بھی نمکین کہا ہے میں نے

تو نے فن کی نہیں شجرے کی حمایت کی ہے
تیرے اعزاز کو توہین کہا ہے میں نے

راحت اندوری

Leave a Comment

خدا کرے میری ارضِ پاک پر اُترے

خدا کرے میری ارضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گُل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کِھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارش برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو

خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو

ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے کہ مِرے اِک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جُرم نہ ہو ، زندگی وبال نہ ہو

احمد ندیم قاسمی

Leave a Comment

تجھ بدن پر ہم نے جانیں واریاں

تجھ بدن پر ہم نے جانیں واریاں
تجھ کو تڑپانے کی ہیں تیاریاں

کر رہے ہیں یاد اسے ہم روز و شب
ہیں بھُلانے کی اسے تیاریاں

تھا کبھی میں اک ہنسی اُن کے لیے
رو رہی ہیں اب مجھے مت ماریاں

جھوٹ سچ کے کھیل میں ہلکان ہیں
خوب ہیں یہ لڑکیاں بےچاریاں

شعر تو کیا بات کہہ سکتے نہیں
جو بھی نوکر جونؔ ہیں سرکاریاں

جو میاں جاتے ہیں دفتر وقت پر
اُن سے ہیں اپنی جُدا دشواریاں

ہم بھلا آئین اور قانون کی
کب تلک سہتے رہیں غداریاں

سُن رکھو اے شہر دارو ! خون کی
ہونے ہی والی ہیں ندیاں جاریاں

ہیں سبھی سے جن کی گہری یاریاں
سُن میاں ہوتی ہیں ان کی خواریاں

ہے خوشی عیاروں کا اک ثمر
غم کی بھی اپنی ہیں کچھ عیاریاں

ذرّے ذرّے پر نہ جانے کس لیے
ہر نفس ہیں کہکشائیں طاریاں

اس نے دل دھاگے ہیں ڈالے پاؤں میں
یہ تو زنجیریں ہیں بےحد بھاریاں

تم کو ہے آداب کا برص و جزام
ہیں ہماری اور ہی بیماریاں

خواب ہائے جاودانی پر مرے
چل رہی ہیں روشنی کی آریاں

ہیں یہ سندھی اور مہاجر ہڈ حرام
کیوں نہیں یہ بیچتے ترکاریاں

یار! سوچو تو عجب سی بات ہے
اُس کے پہلو میں مری قلقاریاں

ختم ہے بس جونؔ پر اُردو غزل
اس نے کی ہیں خون کی گل کاریاں

جون ایلیا

Leave a Comment

تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے

تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے
جنوں میں جتنی بھی گزری بکار گزری ہے
اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے
ہوئی ہے حضرت ناصح سے گفتگو جس شب
وہ شب ضرور سر کوئے یار گزری ہے
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے
نہ گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
چمن پہ غارت گلچیں سے جانے کیا گزری
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے

فیض احمد فیض

Leave a Comment

یہ غم کیا دل کی عادت ہے؟ نہیں تو

یہ غم کیا دل کی عادت ہے؟ نہیں تو
کسی سے کچھ شکایت ہے؟ نہیں تو

کسی کے بن ،کسی کی یاد کے بن
جیئے جانے کی ہمت ہے؟ نہیں تو

ہے وہ اک خوابِ بے تعبیر اس کو
بھلا دینے کی نیت ہے؟ نہیں تو

کسی صورت بھی دل لگتا نہیں ؟ ہاں
تو کچھ دن سے یہ حالت ہے؟ نہیں تو

ترے اس حال پر ہے سب کو حیرت
تجھے بھی اس پہ حیرت ہے؟ نہیں تو

وہ درویشی جو تج کر آ گیا تو
یہ دولت اس کی قیمت ہے؟ نہیں تو

ہم آہنگی نہیں دنیا سے تیری
تجھے اس پر ندامت ہے؟ نہیں تو

ہوا جو کچھ یہی مقسوم تھا کیا
یہی ساری حکایت ہے ؟ نہیں تو

اذیت ناک امیدوں سے تجھ کو
اماں پانے کی حسرت ہے ؟ نہیں تو

تو رہتا ہے خیال و خواب میں گم
تو اس کی وجہ فرصت ہے ؟ نہیں تو

وہاں والوں سے ہے اتنی محبت
یہاں والوں سے نفرت ہے؟ نہیں تو

سبب جو اس جدائی کا بنا ہے
وہ مجھ سے خوبصورت ہے؟ نہیں تو

جون ایلیا

Leave a Comment

کیسا دل اور اس کے کیا غم جی

کیسا دل اور اس کے کیا غم جی
یونہی باتیں بناتے ہیں ہم جی

کیا بھلا آستین اور دامن
کب سے پلکیں بھی اب نہیں نم جی

اُس سے اب کوئی بات کیا کرنا
خود سے بھی بات کیجے کم کم جی

دل جو دل کیا تھا ایک محفل تھا
اب ہے درہم جی اور برہم جی

بات بے طَور ہو گئی شاید
زخم بھی اب نہیں ہیں مرہم جی

ہار دنیا سے مان لیں شاید
دل ہمارے میں اب نہیں دم جی

آپ سے دل کی بات کیسے کہوں
آپ ہی تو ہیں دل کے محرم جی

ہے یہ حسرت کہ ذبح ہو جاؤں
ہے شکن اس شکم کی ظالم جی

کیسے آخر نہ رنگ کھیلیں ہم
دل لہو ہو رہا ہے جانم جی

ہے خرابہ، حسینیہ اپنا
روز مجلس ہے اور ماتم جی

وقت دم بھر کا کھیل ہے اس میں
بیش از بیش ہے کم از کم جی

ہے ازل سے ابد تلک کا حساب
اور بس ایک پل ہے پیہم جی

بے شکن ہو گئی ہیں وہ زلفیں
اس گلی میں نہیں رہے خم جی

دشتِ دل کا غزال ہی نہ رہا
اب بھلا کس سے کیجیے رَم جی

جون ایلیا

Leave a Comment
%d bloggers like this: