Skip to content

Category: Uncategorized

ہو جائے گی جب تم سے شناسائی ذرا اور

ہو جائے گی جب تم سے شناسائی ذرا اور
بڑھ جائے گی شاید مری تنہائی ذرا اور

کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار
اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرا اور

پھر ہاتھ پہ زخموں کے نشاں گن نہ سکو گے
یہ الجھی ہوئی ڈور جو سلجھائی ذرا اور

تردید تو کر سکتا تھا پھیلے گی مگر بات
اس طور بھی ہوگی تری رسوائی ذرا اور

کیوں ترک تعلق بھی کیا لوٹ بھی آیا؟
اچھا تھا کہ ہوتا جو وہ ہرجائی ذرا اور

ہے دیپ تری یاد کا روشن ابھی دل میں
یہ خوف ہے لیکن جو ہوا آئی ذرا اور

لڑنا وہیں دشمن سے جہاں گھیر سکو تم
جیتو گے تبھی ہوگی جو پسپائی ذرا اور

بڑھ جائیں گے کچھ اور لہو بیچنے والے
ہو جائے اگر شہر میں مہنگائی ذرا اور

اک ڈوبتی دھڑکن کی صدا لوگ نہ سن لیں
کچھ دیر کو بجنے دو یہ شہنائی ذرا اور

Leave a Comment

اخلاص کی ثروت دے کردار کی رفعت دے

اخلاص کی ثروت دے کردار کی رفعت دے
گستاخ نگاہوں کو کچھ اشکِ ندامت دے

سرشار مجھے کر دے تو اپنی محبت سے
کچھ شوقِ اطاعت دے کچھ ذوقِ عبادت دے

شب وروز مرےگزریں تیری ثنا میں پیہم
کچھ ایسی عقیدت دے کچھ ایسی ارادت دے

پیمانۂ دل میرا لبریز ہو ایماں سے
کچھ ایسی بصارت دے کچھ ایسی حرارت دے

کچھ اشک ندامت کے پلکوں پہ سجا لوں میں
اے میری اجل مجھ کو بس اتنی سی مہلت دے

یہ میری طبیعت کیوں کج راہی پہ مائل ہے
صد شکرکروں تیرا گر مجھ کو ہدایت دے

چھٹکارا ملے دل کو لذّت سے گناہوں کی
کچھ ایسی طہارت دے کچھ ایسی طراوت دے

حرمت پہ ترے دِیں کی میں خود کو فنا کرلوں
کچھ ایسی جسارت دے کچھ ایسی شجاعت دے

سب تیری نوازش ہے ،ناچیز نہیں قابل
اب اور وثاقت دے، اب اور متانت دے

تو مجھ کو بچا لینارسوائی سے محشر کی
یہ میری گزارش ہے بس ایک ضمانت دے

ہے تیری رضا مجھ کو منظور میرے مولا
بس اپنی ہی چاہت دے ،کچھ اور نہ حاجت دے

Leave a Comment

خوشی ہوتی تو ہے لیکن بہت ساری نہیں ہوتی

خوشی ہوتی تو ہے لیکن بہت ساری نہیں ہوتی
ترے ملنے سے اب وہ کیفیت طاری نہیں ہوتی

یہ اہلِ دل کی محفل ہے یہاں بیٹھو تسلی سے
کسی سے بھی یہاں کوئی ریاکاری نہیں ہوتی

مجھے جرمِ طلب پر مفلسی مجبور کرتی ہے
مگر مجھ سے ہنر کے ساتھ غداری نہیں ہوتی

یہ لازم ہے غریبوں کے حقوق ان کو دیئے جائیں
فقط خیرات سے تو دور ناداری نہیں ہوتی

مکمل امتحانِ دوستی اِک بار ہی لے لو
کہ ہم سے نِت نئے پرچے کی تیاری نہیں ہوتی

تصنع ڈھل نہیں سکتی کبھی شعروں کے سانچے میں
سخنور کی کوئی بھی بات بازاری نہیں ہوتی

بہت بددل ہیں میری شاعری سے لاڈلے میرے
کہ غزلوں سے کھلونوں کی خریداری نہیں ہوتی

دیا ہے اس کو اہلِ شوق نے درجہ عبادت کا
وہ یاری نازؔ جس میں کوئی عیاری نہیں ہوتی

Leave a Comment

کتنے بے درد ہیں صَرصَر کو صبا کہتے ہیں

کتنے بے درد ہیں صَرصَر کو صبا کہتے ہیں
کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیا کہتے ہیں

جبر کو میرے گناہوں کی سزا کہتے ہیں
میری مجبوری کو تسلیم و رضا کہتے ہیں

غم نہیں گر لبِ اظہار پر پابندی ہے
خامشی کو بھی تو اِک طرزِ نوا کہتے ہیں

کُشتگانِ ستم و جور کو بھی دیکھ تو لیں
اہلِ دانش جو جفاؤں کو وفا کہتے ہیں

کل بھی حق بات جو کہنی تھی سرِ دار کہی
آج بھی پیشِ بتاں نامِ خدا کہتے ہیں

یوں تو محفل سے تری اُٹھ گئے سب دل والے
ایک دیوانہ تھا وہ بھی نہ رہا کہتے ہیں

یہ مسیحائی بھی کیا خوب مسیحائی ہے
چارہ گر موت کو تکمیلِ شِفا کہتے ہیں

بزمِ زنداں میں ہوا شورِ سلاسل برپا
دہر والے اسے پائل کی صدا کہتے ہیں

آندھیاں میرے نشیمن کو اڑانے اٹھیں
میرے گھر آئے گا طوفانِ بلا کہتے ہیں

اُن کے ہاتھوں پہ اگر خون کے چھینٹے دیکھیں
مصلحت کیش اسے رنگِ حنا کہتے ہیں

میری فریاد کو اِس عہد ہوس میں ناصر
ایک مجذوب کی بے وقت صدا کہتے ہیں

Leave a Comment

تجھے میں ڈھونڈ رہا ہوں مگر نہیں ہے تُو

تجھے میں ڈھونڈ رہا ہوں مگر نہیں ہے تُو
مجھے یقین ہے لیکن یہیں کہیں ہے تُو

مجھے تو عشق سکھائے گا؟ چھوڑ دے پیارے
میں اوّلیں ہوں محبّت میں آخریں ہے تُو

ذہین ہم بھی بہت ہیں مگر خدا کی قسم
فقط ذہین نہیں ہے بہت حَسیں ہے تُو

میں کیاکہوں کہ تجھےچاہتاہوں کیوں جاناں
اگرچہ لوگ یہ کہتے ہیں مہ جَبیں ہے تُو

بس ایک تم سےمحبّت ہے،تھی،رہے گی سدا
کہ دل مُحلے میں جاناں فَقط مکیں ہے تُو

کبھی جو پوچھا گیا ہے تمہارے بارے میں
یہی کہا کہ مری جان بہتریں ہے تُو

جنون عقل سے آگے نکل گیا اشرف
وَگرنہ لوگ یہ کہتے تھے پیش بیں ہے تُو

Leave a Comment

یہ زمیں مسترد آسماں مسترد

یہ زمیں مسترد آسماں مسترد
ساتھ تم جو نہیں دو جہاں مسترد

اک نگاہِ کرم کا سبب نہ ہوے
منّتیں میری آہ و فغاں مسترد

مجھ کو جینے کی اب آرزو ہی نہیں
تیرے لطف و کرم جانِ جاں مسترد

دھوپ مجھ کو گوارا مگر دوستو
بھیک میں جو ملا سائباں مسترد

مجھ کو راس آ گئیں ہجر میں ہجرتیں
کیا محل جھونپڑی کیا مکاں مسترد

کچھ رقیبوں کا غلبہ تھا چوپال میں
ہو گئی یوں مری داستاں مسترد

آج قاصد کے ہاتھوں میں کچھ بھی نہیں
بالیقیں میرے سب ہی گُماں مسترد

جب خودی پر مری آنچ آنے لگی
کر دیا کوچہِ دلبراں مسترد

تشنہ تنہائی اچھی بیابان کی
محفلیں مسترد گلستاں مسترد

Leave a Comment

تَیرے فِراق کے لَمحے شُمار کَرتے ہُوئے

تَیرے فِراق کے لَمحے شُمار کَرتے ہُوئے
بِکھَر چَلے ہیں تَیرا اِنتِظار کَرتے ……ہُوئے

تو مَیں بھی خوش ہُوں کوئی اُس سے جا کے کَہہ دَینا
اَگَر وُہ خوش ہے مُجھے بے قَرار کَرتے ہُوئے

تُمہَیں خَبَر ہی نَہِیں ہے کہ کوئی ٹُوٹ گَیا
مُحَبَّتوں کو بَہُت پائِیدار کَرتے………. ہُوئے

مَیں مُسکُراتا ہُوا آئِینے میں اُبھروں ….گا
وُہ رو پَڑے گی اَچانَک سِنگھار کَرتے ہُوئے

مُجھے خَبَر تھی کہ اَب لَوٹ کَر نہ آؤں گا
سو تُجھ کو یاد کِیا دِل پہ وار کَرتے…….. ہُوئے

وُہ کَہہ رَہی تھی سَمَندَر نَہِیں ہیں آنکھیں ہیں
مَیں اُن میں ڈُوب گَیا اِعتِبار کَرتے………. ہُوئے

بھَنوَر جو مُجھ میں پَڑے ہیں وُہ مَیں ہی جانتا ہُوں
تُمہارے ہِجَر کے دَریا کو پار کَرتے ہُوئے

Leave a Comment

مجھے التفات سے باز رکھ مجھے زندگی کی سزا نہ دے

مجھے التفات سے باز رکھ مجھے زندگی کی سزا نہ دے
یہ نوازشات کا سلسلہ، مِرا درد اور بڑھا نہ دے

کبھی رنگ روپ بدل لیا، کبھی خود کو خود سے چھپا لیا
کہ جہانِ حرص وہَوس کہیں کوئی تازہ زخم لگا نہ دے

یہ ھے میری خواہشِ معتبر مجھے گھر کے کونے میں دفن کر
مجھے گھر کے کونے میں دفن کر مجھے بےگھری کی سزا نہ دے

ذرا ہاتھ رکھ مرے ہاتھ پر، ذرا غور کر مری بات پر
ترے ہجر کی یہ تپش کہیں مری خواہشوں کو مٹا نہ دے

ابھی صبر کر ابھی صبر کر، کسی فیصلے سے گریز کر
تری گھر بسانے کی آرزو یہ مکان تیرا جلا نہ دے

Leave a Comment
%d bloggers like this: