درد میں ڈوبی ہوئی میری جوانی سے نہ اُلجھ
تیری انکھ سے دریا بہہ نکلے گا میری کہانی سے نہ اُلجھ
ڈوب جائیگی میرے آ نسووں میں ساری زندگی ہی تیری
پامال ہیں خواب سارے میرے اشکوں کی روانی سے نہ اُلجھ
درد میں ڈوبی ہوئی میری جوانی سے نہ اُلجھ
تیری انکھ سے دریا بہہ نکلے گا میری کہانی سے نہ اُلجھ
ڈوب جائیگی میرے آ نسووں میں ساری زندگی ہی تیری
پامال ہیں خواب سارے میرے اشکوں کی روانی سے نہ اُلجھ
یہ بارشیں بھی تم سی ہیں
جو برس گئی تو بہار ہیں
جو ٹھہر گئی تو قرار ہیں
کبھی آ گئی یونہی بے سبب
کبھی چھا گئی یوں ہی روزِ و شب
کبھی شور ہیں کبھی چپ سی ہیں
یہ بارشیں بھی تم سی ہیں
کسی یاد میں کسی رات کو
اک دبی ہوئی سی راکھ کو
کبھی یوں ہوا کہ بجھا دیا
کبھی خود سے خود کو جلا دیا
کبھی بوند بوند میں غم سی ہیں
یہ بارشیں بھی تم سی ہیں
اک رات ستاروں سے کہا نجمِ سحر نے
آدم کو بھی دیکھا ہے کسی نے کبھی بیدار؟
کہنے لگا مریخ ادا فہم ہے تقدیر
ہے نیند ہی اس چھوٹے سے فتنے کو سزاوار
زہرہ نے کہا اور کوئی بات نہیں کیا؟
اس کرمک شب کور سے کیا ہم کو سروکار ؟
بولا مہِ کامل کہ وہ کوکب ہے زمینی
تم شب کو نمودار ہو ، وہ دن کو نمودار
واقف ہو اگر لذتِ بیدارئِ شب سے
اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پر اسرار
آغوش میں اس کی وہ تجلی ہے کہ جس میں
کھو جائیں گے افلاک کے سب ثابت و سیار
ناگاہ فضا بانگِ اذاں سے ہوئی لبریز
وہ نعرہ کہ ہل جاتا ہے جس سے دلِ کہسار
علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ علیہ
کتاب : بالِ جبریل
آج پلکوں سے نکل آیا ھے رخساروں پر,
ضبط تھک ہار کے آبائی وطن چھوڑ گیا.
یہاں دھوکا روایت ہے
بنو زاہد پیئے جاؤ
کرو باتیں سبھی اچھی
گناہ بھی سب کیئے جاؤ
اتارو پشت میں خنجر
زخم رو رو سیئے جاو
اگر ہیں حسرتیں باقی
بچی سانسیں لیئے جاؤ
کہاں تم دے سکو گے حق
سو دھوکہ ہی دیئے جاؤ
ملے گی موت زندوں کو
تمہیں کیا ڈر جیئے جاو
اتباف ابرک
Leave a Commentدکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا
یاد نے کنکر پھینکا ہوگا
آج تو میرا دل کہتا ہے
تو اس وقت اکیلا ہوگا
میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے
اوروں کو خط لکھتا ہوگا
بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں
تو اب تھک کر سویا ہوگا
ریل کی گہری سیٹی سن کر
رات کا جنگل گونجا ہوگا
شہر کے خالی اسٹیشن پر
کوئی مسافر اترا ہوگا
آنگن میں پھر چڑیاں بولیں
تو اب سو کر اٹھا ہوگا
یادوں کی جلتی شبنم سے
پھول سا مکھڑا دھویا ہوگا
موتی جیسی شکل بنا کر
آئینے کو تکتا ہوگا
شام ہوئی اب تو بھی شاید
اپنے گھر کو لوٹا ہوگا
نیلی دھندھلی خاموشی میں
تاروں کی دھن سنتا ہوگا
میرا ساتھی شام کا تارا
تجھ سے آنکھ ملاتا ہوگا
شام کے چلتے ہاتھ نے تجھ کو
میرا سلام تو بھیجا ہوگا
پیاسی کرلاتی کونجوں نے
میرا دکھ تو سنایا ہوگا
میں تو آج بہت رویا ہوں
تو بھی شاید رویا ہوگا
ناصرؔ تیرا میت پرانا
تجھ کو یاد تو آتا ہوگا
۔۔۔۔۔۔
ناصر کاظمی
کہنے کی بات کب ہے یہ کرنے کی بات ہے
دم عمر بھر کسی کا یہ بھرنے کی بات ہے
ہم نے کیا تھا عشق یہ جینے کے واسطے
کر کے خبر ہوئی کہ یہ مرنے کی بات ہے
ہے مختصر بہت یہ وفاؤں کی داستاں
پھولوں کے ڈالیوں سے بکھرنے کی بات ہے
کیسے ملائے بے وفا کوئی نظر یہاں
سودا تمام کر کے مکرنے کی بات ہے
کیجے محبتوں میں نہ شکوہ گلہ کوئی
یہ ہنستے ہنستے جاں سے گزرنے کی بات ہے
ڈرتے ہیں لوگ جانے کیوں اس موت سے بھلا
در اصل زندگی یہاں ڈرنے کی بات ہے
ابرک نہیں ہے آساں بھلانا ہمیں کہ یہ
اپنے ہی دل سے خود ہی اترنے کی بات ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتباف ابرک
Leave a Commentشب غم نہ پوچھ کیسے ترے مبتلا پہ گزری
کبھی آہ بھر کے گرنا کبھی گر کے آہ بھرنا
پیر نصیر الدین شاہ نصیر
Leave a Commentوہ اور تسلی مجھے دیں انکی بلا دے
جاتے ہوئے فرما تو گئے صبر خدا دے
ہر بات کا اللہ نے بخشا ہے سلیقہ
لڑنا بھی مزہ دے تیرا ملنا بھی مزہ دے
اس طرح بھی غش سے کہیں ہوتا ہے افاقہ
یا زلف سنگھا یا مجھے دامن کی ہوا دے
دم چڑھنے لگا غصے کے تیور جو بنائے
نازک ہو جو اتنا مجھے خاک سزا دے
کمبخت نے سب کھول دیئے راز محبت
یہ کس نے کہا تھا کہ بیخود کو پلادے !
یہ جو غُربت میں اُداسی کا سَبب ہے، مَت پُوچھ
مُجھ سے چھوٹا بھی مُجھے چار سُنا دیتا ہے