Skip to content

Category: Uncategorized

درد میں ڈوبی ہوئی میری جوانی

درد میں ڈوبی ہوئی میری جوانی سے نہ اُلجھ
تیری انکھ سے دریا بہہ نکلے گا میری کہانی سے نہ اُلجھ

ڈوب جائیگی میرے آ نسووں میں ساری زندگی ہی تیری
پامال ہیں خواب سارے میرے اشکوں کی روانی سے نہ
اُلجھ

Leave a Comment

یہ بارشیں بھی تم سی ہیں

یہ بارشیں بھی تم سی ہیں
جو برس گئی تو بہار ہیں
جو ٹھہر گئی تو قرار ہیں
کبھی آ گئی یونہی بے سبب
کبھی چھا گئی یوں ہی روزِ و شب
کبھی شور ہیں کبھی چپ سی ہیں
یہ بارشیں بھی تم سی ہیں
کسی یاد میں کسی رات کو
اک دبی ہوئی سی راکھ کو
کبھی یوں ہوا کہ بجھا دیا
کبھی خود سے خود کو جلا دیا
کبھی بوند بوند میں غم سی ہیں
یہ بارشیں بھی تم سی
ہیں

Leave a Comment

اک رات ستاروں سے کہا

اک رات ستاروں سے کہا نجمِ سحر نے
آدم کو بھی دیکھا ہے کسی نے کبھی بیدار؟

کہنے لگا مریخ ادا فہم ہے تقدیر
ہے نیند ہی اس چھوٹے سے فتنے کو سزاوار

زہرہ نے کہا اور کوئی بات نہیں کیا؟
اس کرمک شب کور سے کیا ہم کو سروکار ؟

بولا مہِ کامل کہ وہ کوکب ہے زمینی
تم شب کو نمودار ہو ، وہ دن کو نمودار

واقف ہو اگر لذتِ بیدارئِ شب سے
اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پر اسرار

آغوش میں اس کی وہ تجلی ہے کہ جس میں
کھو جائیں گے افلاک کے سب ثابت و سیار

ناگاہ فضا بانگِ اذاں سے ہوئی لبریز
وہ نعرہ کہ ہل جاتا ہے جس سے دلِ کہسار

علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ علیہ
کتاب : بالِ جبریل

Leave a Comment

یہاں دھوکا روایت ہے

یہاں دھوکا روایت ہے
بنو زاہد پیئے جاؤ

کرو باتیں سبھی اچھی
گناہ بھی سب کیئے جاؤ

اتارو پشت میں خنجر
زخم رو رو سیئے جاو

اگر ہیں حسرتیں باقی
بچی سانسیں لیئے جاؤ

کہاں تم دے سکو گے حق
سو دھوکہ ہی دیئے جاؤ

ملے گی موت زندوں کو
تمہیں کیا ڈر جیئے جاو

اتباف ابرک

Leave a Comment

دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا

دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا
یاد نے کنکر پھینکا ہوگا

آج تو میرا دل کہتا ہے
تو اس وقت اکیلا ہوگا

میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے
اوروں کو خط لکھتا ہوگا

بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں
تو اب تھک کر سویا ہوگا

ریل کی گہری سیٹی سن کر
رات کا جنگل گونجا ہوگا

شہر کے خالی اسٹیشن پر
کوئی مسافر اترا ہوگا

آنگن میں پھر چڑیاں بولیں
تو اب سو کر اٹھا ہوگا

یادوں کی جلتی شبنم سے
پھول سا مکھڑا دھویا ہوگا

موتی جیسی شکل بنا کر
آئینے کو تکتا ہوگا

شام ہوئی اب تو بھی شاید
اپنے گھر کو لوٹا ہوگا

نیلی دھندھلی خاموشی میں
تاروں کی دھن سنتا ہوگا

میرا ساتھی شام کا تارا
تجھ سے آنکھ ملاتا ہوگا

شام کے چلتے ہاتھ نے تجھ کو
میرا سلام تو بھیجا ہوگا

پیاسی کرلاتی کونجوں نے
میرا دکھ تو سنایا ہوگا

میں تو آج بہت رویا ہوں
تو بھی شاید رویا ہوگا

ناصرؔ تیرا میت پرانا
تجھ کو یاد تو آتا ہوگا

۔۔۔۔۔۔
ناصر کاظمی

Leave a Comment

کہنے کی بات کب ہے

کہنے کی بات کب ہے یہ کرنے کی بات ہے
دم عمر بھر کسی کا یہ بھرنے کی بات ہے

ہم نے کیا تھا عشق یہ جینے کے واسطے
کر کے خبر ہوئی کہ یہ مرنے کی بات ہے

ہے مختصر بہت یہ وفاؤں کی داستاں
پھولوں کے ڈالیوں سے بکھرنے کی بات ہے

کیسے ملائے بے وفا کوئی نظر یہاں
سودا تمام کر کے مکرنے کی بات ہے

کیجے محبتوں میں نہ شکوہ گلہ کوئی
یہ ہنستے ہنستے جاں سے گزرنے کی بات ہے

ڈرتے ہیں لوگ جانے کیوں اس موت سے بھلا
در اصل زندگی یہاں ڈرنے کی بات ہے

ابرک نہیں ہے آساں بھلانا ہمیں کہ یہ
اپنے ہی دل سے خود ہی اترنے کی بات ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتباف ابرک

Leave a Comment

وہ اور تسلی مجھے دیں

وہ اور تسلی مجھے دیں انکی بلا دے
جاتے ہوئے فرما تو گئے صبر خدا دے

ہر بات کا اللہ نے بخشا ہے سلیقہ
لڑنا بھی مزہ دے تیرا ملنا بھی مزہ دے

اس طرح بھی غش سے کہیں ہوتا ہے افاقہ
یا زلف سنگھا یا مجھے دامن کی ہوا دے

دم چڑھنے لگا غصے کے تیور جو بنائے
نازک ہو جو اتنا مجھے خاک سزا دے

کمبخت نے سب کھول دیئے راز محبت
یہ کس نے کہا تھا کہ بیخود کو پلادے !

Leave a Comment
%d bloggers like this: