دلِ شکستہ سے یُوں جا رہی ہے اُن کی یاد
مکیں کو جیسے ہو ٹُوٹے ہُوئے مکاں سے گریز
خُدا کی شان! تجھے یُوں مری فُغاں سے گریز
کہ جس طرح ،کسی کافر کو ہو اذاں سے گریز
جہاں وہ چاہیں قمؔر شوق سے ہمیں رکھیں
زمیں سے ہم کو گریز اور نہ آسماں سے گریز
This Category will contain all sad poetry
دلِ شکستہ سے یُوں جا رہی ہے اُن کی یاد
مکیں کو جیسے ہو ٹُوٹے ہُوئے مکاں سے گریز
خُدا کی شان! تجھے یُوں مری فُغاں سے گریز
کہ جس طرح ،کسی کافر کو ہو اذاں سے گریز
جہاں وہ چاہیں قمؔر شوق سے ہمیں رکھیں
زمیں سے ہم کو گریز اور نہ آسماں سے گریز
لاکھ تم اشک چھپاؤ، ہنسی میں بہلاؤ
چشمِ نمناک بتاتی ہے کہ تم روئے ہو
یہ جو رُخ موڑ کے تم نے کہا نا، “ٹھیک ہوں میں
مجھے آواز بتاتی ہے کہ تم روئے ہو
جو اُترتی ہے “مری” آنکھ میں گاہے گاہے
وہ نمی صاف بتاتی ہے کہ “تم” روئے ہو
چاند چُپ ہے، مگر… بھیگی ہوئی سرگوشی میں
چاندنی رات بتاتی ہے کہ تم روئے ہو
میں تجھے جیت کے ہارا، تری خوشیوں کے لیے
پر مری مات بتاتی ہے کہ تم روئے ہو
یہ جو بے موسمی برسات برستی ہے وصی
راز کی بات بتاتی ہے کہ تم روئے ہو
وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے
جو عشق کو کام سمجھتے تھے
یا کام سے عاشقی کرتے تھے
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
کام عشق کے آڑے آتا رہا
اور عشق سے کام الجھتا رہا
پھر آخر تنگ آ کر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا۔
فیض احمد فیض
Leave a Commentدم بہ دم گردشِ دوراں کا گُھمایا ہُوا شخص
ایک دِن حشر اُٹھاتا ہے گرایا ہوا شخص
میں تو خود پر بھی کفایت سے اُسے خرچ کروں
وہ ہے مہنگائی میں مُشکل سے کمایا ہوا شخص
یاد آتا ہے تو آتا ہی چلا جاتا ہے
کارِ بیکارِ زمانہ میں بُھلایا ہوا شخص
دشتِ بے آب میں آواز نہ الفاظ کہِیں
ہر طرف دھوپ تھی پھر پیڑ کا سایہ ہوا شخص
جب ضرورت تھی،اُسی وقت مُجھے کیوں نہ ملا
بس اِسی ضد میں گنوا بیٹھوں گا پایا ہُوا شخص
کیا عجب خوانِ مُقدّر ہی اُٹھا کر پھینکے
ڈانٹ کرخوانِ مُقدّر سے اُٹھایا ہُوا شخص
اپنی شورِیدہ مِزاجی کا کروں کیا “نیّر”
روٹھ کر جا بھی چُکا مان کے آیا ہُوا شخص
آپ کیوں صاحبِ اسرار سمجھتے ہیں مجھے
گھر کے افراد تو بے کار سمجھتے ہیں مجھے
آپ کو میں نے کبھی غور سے دیکھا بھی نہیں
آپ بھی اپنا طلب گار سمجھتے ہیں مُجھے
میرے کردار کی جو قسمیں اٹھاتے تھے کبھی
اب وہی لوگ گناہگار سمجھتے ہیں مجھے
آپ تو وقت گزاری کو مجھے ملتے ہیں
آپ تو شام کا اخبار سمجھتے ہیں مجھے
جب بھی مشکل میں ہوں احباب تو آ جاتے ہیں
کسی درویش کا دربار سمجھتے ہیں مجھے
اہل_ دانش کی نظر میں ہوں میں کم فہم مگر
سارے کم فہم سمجھدار سمجھتے ہیں مجھے
جن کی تلقین پہ میں غم میں ہنسا کرتا ہوں
جانے کیوں اب وہ اداکار سمجھتے ہیں مجھے
میں کہانی کا ہوں اک ثانوی کردار سفیر
اور وہ مرکزی کردار سمجھتے ہیں مجھے
ﻣﺠﮫ ﭘﮧ ﺟﻮ ﻏﯿﺮ ﮐﺎ ﻗﺒﻀﮧ ﮨﮯ ﭼﮭﮍﺍﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ
ﺟﺴﻢ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺡ ﮐﻮ ﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﻣﻼﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ
ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﯿﮯ ﭘﮭﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﺎﺷﮧ ﻣﺎﺷﮧ
ﮐﻮﺯﮦ ﮔﺮ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭼﺎﮎ ﭘﮧ ﻻﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ
اس راز سے بھی پردہ آج اٹھا گیا ہوں میں
سبھی رشتوں سے باخدا اکتا گیا ہوں میں
متاعءدل کا تھا رشتہ اک اجنبی سے! افسوس
بےاعتباری میں اسکو بھی ٹھکرا گیا ہوں میں
اب کیوں ڈھونڈوں وہ چشمِ کرم، ہونے دے ستم بالائے ستم
میں چاہتا ہوں اے جذبہ ِ غم، مشکل، پسِ مشکل آ جائے
میں کہاں تیری داستاں سے الگ؟
کچھ نہیں ُدھول، کارواں سے الگ!
چاند کتنا عزیز تھا ُاس کو__!
رات ٹھہری میرے مکاں سے الگ
فصلِ ُگل میں بھی پھول ُمرجھائے
اک خزاں اور ہے خزاں سے الگ
میرے قاتل نظر نہ آ مجھ کو،
برق رہتی ہے آشیاں سے الگ
سر کو سودائے سنگ ہے لیکن
سنگ ہو تیرے آستاں سے الگ؟
دو جہاں چھوڑ کر ِملو ُاس سے
وہ کہ رہتا ہے دو جہاں سے الگ
آؤ آپس میں فیصلہ کر لیں
کس کو ہونا ہے اب کہاں سے الگ؟
دل میں ُاترا تھا جو کبھی محسنؔ
وہ ستارا تھا آسماں سے الگ _!
“محسن نقوی”
Leave a Comment