Skip to content

Category: Sad Poetry

This Category will contain all sad poetry

وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی​

وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی​
اک ترے وصل کی گھڑی ہو گی​

دستکیں دے رہی ہے پلکوں پر​
کوئی برسات کی جھڑی ہو گی​

کیا خبر تھی کہ نوکِ خنجر بھی​
پھول کی ایک پنکھڑی ہو گی​

زلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر​
چاندنی سے صبا لڑی ہو گی​

اے عدم کے مسافرو ہشیار​
راہ میں زندگی کھڑی ہو گی​

کیوں گرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے​
جاں کسی پھول کی اڑی ہو گی​

التجا کا ملال کیا کیجے​
ان کے در پر کہیں پڑی ہو گی​

موت کہتے ہیں جس کو اے ساغر​
زندگی کی کوئی کڑی ہو گی​


​ ساغر صدیقی

Leave a Comment

وہی گردشیں وہی پیچ و خم ترے بعد بھی

وہی گردشیں وہی پیچ و خم ترے بعد بھی
وہی حوصلے مرے دم بدم ترے بعد بھی

ترے ساتھ تھی تری ہر جفا مجھے معتبر
تیرے سارے غم مجھے محترم ترے بعد بھی

ترے غم سے ہے مری ہر خوشی میں وقار سا
مرے حال پر ہیں ترے کرم ترے بعد بھی

بڑے مضطرب مرے راستے ترے بعد، پر
بڑے پُرسکوں ہیں مرے قدم ترے بعد بھی

تیرے ساتھ ہے میری ہر خوشی تیری منتظر
تیری منتظر مری چشمِ نم ترے بعد بھی

ترے ساتھ تھی مری دسترس میں جو روشنی
فقط ایک پل کبھی صبح دم ترے بعد بھی

تجھے جانِ غم جو کہا کبھی تو غلط کہا
مری زندگی کے جواں ہیں غم ترے بعد بھی

تجھے پاسِ عہدِ وفا رہا مرے پاس کب
مجھے جاں سے بڑھ کے ترا بھرم ترے بعد بھی

مرے بعد کتنے ہی رُوپ تُو نے بدل لیے
میں وہی ہوں اب بھی تری قسم ترے بعد بھی

تُو کسی کے قالبِ آرزو میں تو ڈھل گیا
میں نہ ہو سکا کبھی خود میں ضم ترے بعد بھی

یہی عشق تھا مری زندگی ترے پیشتر
یہی عاشقی، مِرا دهرم ! ترے بعد بھی

تری آہٹوں کا گداز تھا مرا ہم سفر
یہی اِک گماں مرا ہم قدم ترے بعد بھی

تُو چلا گیا سبھی قہقہوں کو سمیٹ کر
مرے پاس ہے مرا ظرفِ غم ترے بعد بھی

Leave a Comment

خوُشی کا غم ہے نہ غم کی کوئی خوُشی اب تو

خوُشی کا غم ہے نہ غم کی کوئی خوُشی اب تو
بہت اُداس گُزرتی ہے زندگی اب تو

تِرے بغیر بھی دل کی تسلیوں کے لیے
اِک اِنتظار کی شب تھی، سو ڈھل چُکی اب تو

اِک آشنا کے بچھڑنے سے کیا نہیں بدلا؟
ہَوائے شہر بھی لگتی ہے اجنبی اب تو

تمام رات رہی دل میں روشنی کی لکیر
مثالِ شمعِ سَحر، وہ بھی جَل بُجھی اب تو

چَلی تھی جن سے یہاں رسمِ خوُدنگہداری
اُنہیں عزیز ہُوا ذکرِ خوُدکشی اب تو

کہاں گئے وہ شناسا وہ اجنبی چہرے!
اُجاڑ سی نظر آتی ہے ہر گلی اب تو

محسن نقوی

Leave a Comment

رقص کرنے کا ملا حکم جو دریاؤں میں

رقص کرنے کا ملا حکم جو دریاؤں میں
ہم نے خوش ہو کے بھنور باندھ لئے پاؤں میں

ان کو بھی ہے کسی بھیگے ہوئے منظر کی تلاش
بوند تک بو نہ سکے جو کبھی صحراؤں میں

اے میرے ہمسفرو تم بھی تھکے ہارے ہو
دھوپ کی تم تو ملاوٹ نہ کرو چھاؤں میں

جو بھی آتا ہے بتاتا ہے نیا کوئی علاج
بٹ نہ جائے ترا بیمار مسیحاؤں میں

حوصلہ کس میں ہے یوسف کی خریداری کا
اب تو مہنگائی کے چرچے ہیں زلیخاؤں میں

جس برہمن نے کہا ہےکہ یہ سال اچھا ہے
اس کو دفناؤ مرے ہاتھ کی ریکھاؤں میں

وہ خدا ہے کسی ٹوٹے ہوئے دل میں ہو گا
مسجدوں میں اسے ڈھونڈو نہ کلیساؤں میں

ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے
اک یہی عیب ہے اس شہر کے داناؤں میں

مجھ سے کرتے ہیں قتیلؔ اس لئے کچھ لوگ حسد
کیوں مرے شعر ہیں مقبول حسیناؤں میں

Leave a Comment

تیز آندھیوں میں اُڑتے پَر و بال کی طرح

تیز آندھیوں میں اُڑتے پَر و بال کی طرح
ہر شے گزشتنی ہے مَہ و سال کی طرح

کیوں کر کہوں کہ درپئے آزار ہے وہی
جو آسماں ہے سَر پہ مِرے ڈھال کی طرح

یوں بے سبب تو کوئی انہیں پوجتا نہیں
کچھ تو ہے پتھروں میں خدوخال کی طرح

کیا کچھ کیا نہ خود کو چھپانے کے واسطے
عریانیوں کو اوڑھ لیا شال کی طرح

اب تک مِرا زمین سے رشتہ ہے استوار
رہنِ ستم ہوں سبزۂِ پامال کی طرح

میں خود ہی جلوہ ریز ہوں، خود ہی نگاہِ شوق
شفّاف پانیوں پہ جھکی ڈال کی طرح

ہر موڑ پر ملیں گے کئی راہ زن شکیبؔ
چلیے چھپا کے غم بھی زَر و مال کی طرح

شکیب جلالی

Leave a Comment

زخمِ دل پُربہار دیکھا ہے

زخمِ دل پُربہار دیکھا ہے
کیا عجب لالہ زار دیکھا ہے

جن کے دامن میں‌ کچھ نہیں ہوتا
اُن کے سینوں میں پیار دیکھا ہے

خاک اُڑتی ہے تیری گلیوں میں‌
زندگی کا وقار دیکھا ہے

تشنگی ہے صدف کے ہونٹوں پر
گُل کا سینہ فِگار دیکھا ہے

ساقیا! اہتمامِ بادہ کر
وقت کو سوگوار دیکھا ہے

جذبۂ غم کی ، خیر ہو ساغر
حسرتوں پر نِکھار دیکھا ہے

Leave a Comment

آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا

آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا
وہ شخص ، ایک شام میں کتنا بدل گیا

کُچھ دن تو میرا عکس رھا ، آئینے پہ نقش
پھر یوں ھُوا ، کہ خُود میرا چہرا بدل گیا

جب اپنے اپنے حال پہ ، ھم تم نہ رہ سکے
تو کیا ھُوا ، جو ھم سے زمانہ بدل گیا ؟؟

قدموں تلے جو ریت بچھی تھی ، وہ چل پڑی
اُس نے چھڑایا ھاتھ تو ، صحرا بدل گیا

کوئی بھی چیز ، اپنی جگہ پر نہیں رھی
جاتے ھی ایک شخص کے ، کیا کیا بدل گیا

اِک سر خوشی کی موج نے ، کیسا کیا کمال
وہ بے نیاز ، سارے کا سارا بدل گیا

اُٹھ کر چلا گیا ، کوئی وقفے کے درمیاں
پردہ اُٹھا ، تو سارا تماشا بدل گیا

حیرت سے سارے لفظ اُسے دیکھتے رھے
باتوں میں اپنی بات کو کیسا بدل گیا

کہنے کو ایک صحن میں ، دیوار ھی بنی
گھر کی فضا ، مکان کو نقشہ بدل گیا

شاید وفا کے کھیل سے ، اُکتا گیا تھا وہ
منزل کے پاس آ کے ، جو رستہ بدل گیا

قائم کسی بھی حال پہ ، دُنیا نہیں رھی
تعبیرکھو گئی ، کبھی سَپنا بدل گیا

منظر کا رنگ اصل میں سایا تھا رنگ کا
جس نے اُسے جدھر سے بھی دیکھا بدل گیا

اندر کے موسموں کی خبر اُس کو ھو گئی
اُس نو بہارِ ناز کا چہرا بدل گیا

آنکھوں میں جتنے اشک تھے ، جگنو سے بن گئے
وہ مُسکرایا ، اور میری دُنیا بدل گیا

اپنی گلی میں اپنا ھی گھر ڈھونڈتے ھیں لوگ
امجد یہ کون شہر کا نقشہ بدل گیا ؟؟

امجد اسلام امجد

Leave a Comment

برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلرُبا سا

برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلرُبا سا
اب ذہن ميں نہيں ہے پر نام تھا بھلا سا

ابرو کھنچے کھنچے سے آنکھيں جھکی جھکی سی
باتيں رکی رکی سی لہجہ تھکا تھکا سا

الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر ميں تھے
بن جائے جنگلوں ميں جس طرح راستہ سا

خوابوں ميں خواب اُسکے يادوں ميں ياد اُسکی
نيندوں ميں گھل گيا ہو جيسے رَتجگا سا

پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی ميں
وہ ہر طرح سے ليکن اوروں سے تھا جدا سا

اگلی محبتوں نے وہ نا مرادياں ديں
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا

کچھ يہ کہ مدتوں سے ہم بھی نہيں تھے روئے
کچھ زہر ميں بُجھا تھا احباب کا دلاسا

پھر يوں ہوا کے ساون آنکھوں ميں آ بسے تھے
پھر يوں ہوا کہ جيسے دل بھی تھا آبلہ سا

اب سچ کہيں تو يارو ہم کو خبر نہيں تھی
بن جائے گا قيامت اک واقع ذرا سا

تيور تھے بے رُخی کے انداز دوستی کے
وہ اجنبی تھا ليکن لگتا تھا آشنا سا

ہم دشت تھے کہ دريا ہم زہر تھے کہ امرت
ناحق تھا زعم ہم کو جب وہ نہيں تھا پياسا

ہم نے بھی اُس کو ديکھا کل شام اتفاقا
اپنا بھی حال ہے اب لوگو فراز کا سا

احمد فراز

Leave a Comment

کہنے کو میرا اُس سے کوئی واسطہ نہیں

کہنے کو میرا اُس سے کوئی واسطہ نہیں
امجد مگر وہ شخص مجھے بُھولتا نہیں

ڈرتا ہُوں آنکھ کھولوں تو منظر بدل نہ جائے
مَیں جاگ تو رہا ہُوں مگر جاگتا نہیں

آشفتگی سے اُس کی اُسے بے وفا نہ جان
عادت کی بات اور ہے دِل کا بُرا نہیں

صاحبِ نظر سے کرتا ہے پتّھر بھی گُفتگو
ناجنس کے حضور زباں کھولتا نہیں

تنہا اُداس چاند کو سمجھو نہ بےخبر
ہر بات سُن رہا ہے مگر بولتا نہیں

خاموش رتجگوں کا دُھواں تھا چہار سُو
نِکلا کب آفتاب مُجھے تو پتا نہیں

امجد وہ آنکھیں جھیل سی گہری تو ہیں مگر
اُن میں کوئی بھی عکس مِرے نام کا نہیں

امجد اسلام امجد

Leave a Comment

یہ معجزہ بھی محبّت کبھی دِکھائے مجھے

یہ معجزہ بھی محبّت کبھی دِکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گِرے اور زخم آئے مجھے

میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہُوں سائے کو
بدن مِرا ہی سہی، دوپہر نہ بھائے مجھے

بَرنگِ عَود مِلے گی اُسے مِری خوشبُو
وہ جب بھی چاہے، بڑے شوق سے جَلائے مجھے

میں گھر سے، تیری تمنّا پہن کے جب نِکلوں
برہنہ شہر میں ‌کوئی نظر نہ آئے مجھے

وہی تو سب سے زیادہ ہے نُکتہ چِیں میرا
جو مُسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے مجھے

میں اپنے دِل سے نِکالوں خیال کِس کِس کا
جو تو نہیں تو کوئی اور یاد آئے مجھے

زمانہ درد کے صحرا تک آج لے آیا
گُزار کر تِری زُلفوں کے سائے سائے مجھے

وہ میرا دوست ہے، سارے جہاں‌ کو ہے معلوُم
دَغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے

وہ مہْرباں ہے، تو اِقرار کیوں نہیں کرتا
وہ بدگُماں ہے، تو سو بار آزمائے مجھے

میں اپنی ذات میں نِیلام ہو رہا ہُوں، قتِیل
غمِ حیات سے کہہ دو خرِید لائے مجھے

قتِیل شِفائی

Leave a Comment
%d bloggers like this: