یہ نگائیں یہ اشارے یہ ادائیں توبہ
ان شرابوں کو سرعام لٹایا نہ کرو
شام گہری ہو تو کچھ حسین ہوتی ہے
سایہ زلف کو چہرے سے ہٹایا نہ کرو
This Category will contain all sad poetry
یہ نگائیں یہ اشارے یہ ادائیں توبہ
ان شرابوں کو سرعام لٹایا نہ کرو
شام گہری ہو تو کچھ حسین ہوتی ہے
سایہ زلف کو چہرے سے ہٹایا نہ کرو
کون ہوں مجھ کو بتایا جائے
گر نہ مانوں تو منایا جائے
روز یاں سب کو ہے تازہ شکوہ
روز کس کس کو منایا جائے
حل نہیں مانا مرا ہے ممکن
مسئلہ پھر بھی اٹھایا جائے
مجھ کو حالات نہ سونے دیں گے
خواب دے کر ہی سلایا جائے
کب مرے گھر ہے گزر سورج کا
دیا کس وقت بجھایا جائے
اب محبت تو ہضم ہوتی نہیں
جامِ نفرت ہی پلایا جائے
سبھی پتھر ہیں مرے جانچے ہوئے
ان سے مجھ کو نہ ڈرایا جائے
مجھ سے ملنے کی تمنا ہو جسے
ایسا کوئی تو ملایا جائے
یوں نہ لوٹوں گا کہانی میں اب
پہلے انجام سنایا جائے
عشق دلدل کی طرح ہوتا ہے
اس میں کیا رستہ بنایا جائے
کیا راہوں نے ہے ایکا ابرک
راہ سے مجھ کو ہٹایا جائے
…… اتباف ابرک
Leave a Commentکوئی تردید کا صَدمہ ھے ، نہ اَثبات کا دُکھ
جب بچھڑنا ھی مقدر ھے تو ، کس بات کا دُکھ؟
میز پر چائے کے دو بھاپ اُڑاتے ھُوئے کپ
اور بس سامنے رَکھا ھے , ملاقات کا دُکھ۔
بچھڑ گیا ہوں مگر یاد کرتا رہتا ہوں
کتاب چھوڑ چکا ہوں،پڑھائی جاری ہے !
عجیب خبطِ مسیحائی ہے کہ حیرت ہے
مریض مر بھی چکا ہے،دوائی جاری ہے !
یہ حادثات نہ سمجھیں ابھی کہ پست ہوں میں
شکستہ ہو کے بھی، ناقابلِ شکست ہوں میں
متاعِ درد سے دل مالا مال ہے میرا ،
زمانہ کیوں یہ سمجھتا ہےکہ تنگدست ہوں میں
یہ انکشاف ہوا ہی نہیں کبھی مُجھ پر
خُودی پرست ہوں میں یا خُدا پرست ہوں میں
نہ پا سکیں گے ‘جوانانِ بادہ مست’ مُجھے
خُود اپنی ذات میں ‘خُم خانہءِ الست’ ہوں میں
قبول کس نے کیا میری سرپرستی کو ؟
بظاہر “ایک قبیلے کا سرپرست ہوں میں”
مِلا ہے فقر تو ورثے میں جَدّ ِ امجد سے
!!مُجھے یہ فخر ہے ساقی کہ فاقہ مست ہوں میں ۔۔۔۔
گلاب آنکھیں شراب آنکھیں
یہی تو ہیں لاجواب آنکھیں
انہیں میں الفت انہیں میں نفرت
سوال آنکھیں عذاب آنکھیں
کبھی نظر میں بلا کی شوخی
کبھی سراپا حجاب آنکھیں
کبھی چھپاتی ہیں راز دل کے
کبھی ہیں دل کی کتاب آنکھیں
کسی نے دیکھیں تو جھیل جیسی
کسی نے پائی شراب آنکھیں
وہ آئے تو لوگ مجھ سے بولے
حضور آنکھیں جناب آنکھیں
عجب تھا یہ گفتگو کا عالم
سوال کوئی جواب آنکھیں
یہ مست مست بے مثال آنکھیں
نشے سے ہر دم نڈھال آنکھیں
اٹھیں تو ہوش و حواس چھینیں
گریں تو کر دیں کمال آنکھیں
کوئی ہے انکے کراہ کا طالب
کسی کا شوق وصال آنکھیں
نہ یوں جلیں نہ یوں ستائیں
کریں تو کچھ یہ خیال آنکھیں
ہیں جینے کا اک بہانہ یارو
یہ روح پرور جمال آنکھیں
درّاز پلکیں وصال آنکھیں
مصوری کا کمال آنکھیں
شراب رب نے حرام کر دی
مگر کیوں رکھی حلال آنکھیں
ہزاروں ان سے قتل ہوئے ہیں
خدا کے بندے سنبھال آنکھیں
~ ساغر صدیقی
Leave a Commentمَستئ حال کبھی تھی کہ نہ تھی ، بُھول گئے
یاد اپنی کوئی حالت نہ رھی ، بُھول گئے
حَرمِ ناز و اَدا ، تُجھ سے بچھڑنے والے
بُت گَری بُھول گئے ، بُت شِکنی بُھول گئے
کُوچہء کَج کَلہاں ! تیرے وہ ھجرت زَدگاں
خوُد سَری بُھول گئے ، خوُد نگری بُھول گئے
یُوں مُجھے بھیج کے تنہا سرِ بازارِ فریب
کیا میرے دوست ، میری سادہ دِلی بُھول گئے؟؟
میں تو بے حِس ھُوں، مُجھے درد کا احساس نہیں
چارہ گر کیوں رَوِشِ چارہ گَری بُھول گئے؟؟
مُجھے تاکیدِ شکیبائی کا بھیجا جو پیام
آپ شاید میری شوریدہ سَری بُھول گئے
اب میرے اَشکِ مُحبّت بھی نہیں آپ کو یاد
آپ تو اپنے ھی دامن کی نمی بُھول گئے
اب کوئی مُجھ کو دِلائے نہ مُحبّت کا یقیں
جو مُجھے بُھول نہ سکتے تھے ، وھی بُھول گئے
اور کیا چاھتی ھے گردشِ ایّام کہ ھم ؟؟
اپنا گھر بُھول گئے ، اُس کی گَلی بُھول گئے
کیا کہیں کِتنی ھی باتیں تھیں ، جو اب یاد نہیں
کیا کریں ھم سے بڑی بُھول ھُوئی، بُھول گئے
“جون ایلیاء”
Leave a Commentیوسف نہ تھے ــ مـــگر سرِ بازار آ گئے
خوش فہمیاں یہ تھیں ــ کہ خریدار آ گئے
ھم کج ادا چراغ ـ ـ کہ جب بھی ہوا چلی
تاقوں کو چھوڑ کر ــ سرِ دیوار آ گئے
پھر اس طرح ہُوا ـ ـ مجھے مقتل میں چھوڑ کر
سب چارہ ساز ــ جانبِ دربار آ گئے
اَب دل میں حوصلہ ـ ـ نہ سکت بازوں میں ہے
اب کے مقابلے پہ ــ میرے یار آ گئے
آواز دے کے چُھپ گئی ہر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے ــ کہ ہر بار آ گئے
یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے
ہم خواب بیچنے سر بازار آ گئے
سورج کی روشنی پہ ـ ـ جنہیں ناز تھا فرازؔ
وہ بھی تو ــ زیرِ سایۂ دیوار آ گئے
فرازؔ
Leave a Commentانہی سے ہم تو محو گفتگو ہیں
جو اک مدت سے اب نہ روبرو ہیں
ہنگامہ وہ ہے برپا زندگی میں
سناٹے ہی سناٹے چار سو ہیں
اتباف ابرک
Leave a Comment