یہ میرے عکس کو محفوظ کیوں نہیں کرتا
میں آئینے سے کئی مرتبہ خفا بھی ہوا
علی زریون
Leave a CommentThis Category will contain all sad poetry
تو بوئے گل ہے اور پریشاں ہوا ہوں میں
دونوں میں ایک رشتۂ آوارگی تو ہے
ﺑﮯ ﺩﺭﺩ ﺳﻨﻨﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭼﻞ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﯿﺎ ﺍﭼﮭﯽ ﻏﺰﻝ
ﻋﺎﺷﻖ ﺗﯿﺮﺍ، ﺭﺳﻮﺍ ﺗﯿﺮﺍ، ﺷﺎﻋﺮ ﺗﯿﺮﺍ، ﺍﻧﺸﺎؔ ﺗﯿﺮﺍ
ابن_انشا
Leave a Commentھم جنگل کے جوگی ھم کو ایک جگہ آرام کہاں
آج یہاں ، کل اور نگر میں ، صبح کہاں اور شام کہاں !
ابن انشاء
Leave a Commentمدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے
کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوت مژگاں کیے ہوئے
پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے
پھر گرم نالہ ہائے شرربار ہے نفس
مدت ہوئی ہے سیر چراغاں کیے ہوئے
پھر پرسش جراحت دل کو چلا ہے عشق
سامان صدہزار نمکداں کیے ہوئے
پھر بھر رہا ہوں خامۂ مژگاں بہ خون دل
ساز چمن طرازی داماں کیے ہوئے
باہم دگر ہوئے ہیں دل و دیدہ پھر رقیب
نظارہ و خیال کا ساماں کیے ہوئے
دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرض متاع عقل و دل و جاں کیے ہوئے
دوڑے ہے پھر ہر ایک گل و لالہ پر خیال
صد گلستاں نگاہ کا ساماں کیے ہوئے
پھر چاہتا ہوں نامۂ دل دار کھولنا
جاں نذر دل فریبی عنواں کیے ہوئے
مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس
زلف سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے
چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو
سرمے سے تیز دشنۂ مژگاں کیے ہوئے
اک نو بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فروغ مے سے گلستاں کیے ہوئے
پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بار منت درباں کیے ہوئے
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے
غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کیے ہوئے
طے کر نہ سکا زیست کے زخموں کا سفر بھی
حالانکہ مِرا دِل تھا شگوفہ بھی شرر بھی
اُترا نہ گریباں میں مقدر کا ستارا
ہم لوگ لٹاتے رہے اشکوں کے گہر بھی
حق بات پہ کٹتی ہیں تو کٹنے دو زبانیں
جی لیں گے مِرے یار باندازِ دگر بھی
حیراں نہ ہو آئینہ کی تابندہ فضا پر
آ دیکھ ذرا زخمِ کفِ آئینہ گر بھی
سوکھے ہوئے پتوں کو اُڑانے کی ہوس میں
آندھی نے گِرائے کئی سر سبز شجر بھی
وہ آگ جو پھیلی میرے دامن کو جلا کر
اُس آگ نے پھونکا میرے احباب کا گھر بھی
محسنؔ یونہی بدنام ہوا شام کا ملبوس
حالانکہ لہو رنگ تھا دامانِ سحر بھی
ہمارے ہاتھ میں اس کی لگام تھوڑی ہے
وہ ہمسفر ہے ہمارا غلام تھوڑی ہے
ہم اپنے آپ سے ملتے ہیں تو، سنورتے ہیں
کسی کے واسطے یہ اہتمام تھوڑی ہے
کسی بھی لفظ کا جادُو اَثر نہیں کرتا
وہ اپنے دل کی مجھے بھی خبر نہیں کرتا
بنا ہوا ہے بظاہر وہ بے تعلّق بھی
جو مجھ کو سوچے بِنا دن بسر نہیں کرتا
اور اب اداسی کی ستر پوشی کا مرحلہ ہے
تھکن کے دھاگوں سے ایک چادر بنا رہا ہوں
(عباس تابش)
Leave a Commentاب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں
اب شوق کا کچھ اور ہی عالم ہے مری جاں
اب تذکرہء خندۂ گل بار ہے جی پر
جاں وقفِ غمِ گریۂ شبنم ہے مری جاں
رخ پر ترے بکھری ہوئی یہ زلف سیہ تاب
تصویر پریشانیٔ عالم ہے مری جاں
یہ کیا کہ تجھے بھی ہے زمانے سے شکایت
یہ کیا کہ تری آنکھ بھی پرنم ہے مری جاں
ہم سادہ دلوں پر یہ شبِ غم کا تسلط
مایوس نہ ہو اور کوئی دَم ہے مری جاں
یہ تیری توجہ کا ہے اعجاز کہ مجھ سے
ہر شخص ترے شہر کا برہم ہے مری جاں
اے نزہتِ مہتاب ترا غم ہے مری زیست
اے نازشِ خورشید ترا غم ہے مری جاں