نِگاہ ناز کی معصُومِیت ،ارے توبہ
!جو ہم فریب نہ کھاتے تو اور کیا کرتے
Collection Of Your Favorite Poets
This Category will contain all sad poetry
نِگاہ ناز کی معصُومِیت ،ارے توبہ
!جو ہم فریب نہ کھاتے تو اور کیا کرتے
پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے
پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں
رت آئی پیلے پھولوں کی تم یاد آئے
پھر کاگا بولا گھر کے سونے آنگن میں
پھر امرت رس کی بوند پڑی تم یاد آئے
پہلے تو میں چیخ کے رویا اور پھر ہنسنے لگا
بادل گرجا بجلی چمکی تم یاد آئے
دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا
جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے
ناصر کاظمی
Leave a Commentشال پہنائے گا اب کون دسمبر میں تمہیں
بارشوں میں کبھی بھیگو گے تو یاد آوں گا
اس میں شامل ہے میرے بخت کی تاریکی بھی
تم سیاہ رنگ جو پہنو گے تو یاد آؤں گا
چپ نہ رہتے بیاں ہوجاتے
تجھ سے گر بدگماں ہوجاتے
ضبطِ غم نے بچا لیا، ورنہ
ہم کوئی داستاں ہو جاتے
(نوشی گیلانی)
Leave a Commentاسی لئے تو کسی کو بتانے والا نہیں
کہ تیرا میرا تعلق زمانے والا نہیں
برے لگیں نہ ہمیں کیوں یہ خوبصورت لوگ
کہ ان میں کوئی مرا غم بٹانے والا نہیں
میں اس لئے تجھے بانہوں میں بھرنا چاہتا ہوں
مجھے پتہ ہے تو لاہور آنے والا نہیں
عباس تابش
Leave a Commentسرِ محشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہو گا
درِ جنت نہ وا ہو گا ۔۔۔۔ درِ رحمت تو وا ہو گا
جہنم ہو کہ جنت ۔۔۔ جو بھی ہو گا فیصلہ ہو گا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور اُن کا سامنا ہو گا
۔۔۔۔۔۔۔
جگر مراد آبادی
کَکھ سَواد نہ مِشری اندر
تے کھنڈاں وی چَکھ ڈِٹھیاں
اینہاں ساری چیزاں نالوں
گلاں سجنڑ دِیاں مِٹھیاں
“میاں محمّد بخش”
Leave a Commentہمارے شعروں کی کیا حقیقت,تمہاری آنکھوں کے ترجمے ہیں
تمہاری آنکھیں کے جن کے جادو, ہزار راتوں کے ترجمے ہیں
جو تم ترقی کی بات لکھنا, تو یہ گواہی بھی ساتھ لکھنا
یہ ٹوٹی گلیاں یہ بھوکے بچے,تمہارے محلوں کے کے ترجمے ہیں
میں اس عدالت کو کیسے مانوں, بدست جابر جو بک گئی ہو
یہ جتنے کاغذ ہیں فیصلوں کے, سب غلاموں کے ترجمے ہیں
ہماری آنکھوں پہ طنز کیسا,ہماری حالت سے وحشتیں کیوں
کہ اپنی آنکھوں کے رتجگے بھی تمہاری نیندوں کے ترجمے ہیں
علی زریون
Leave a Commentمیں اِک تجسُس کے سِوا کچھ بھی نہیں
آپ پرکھیں گے، جانیں گے، اُکتاجائیں گے
دل بہلتا ہے کہاں انجم و مہتاب سے بھی
اب تو ہم لوگ گئے، دیدۂ بے خواب سے بھی
رو پڑا ہوں تو کوئی بات ہی ایسی ہو گی
میں کہ واقف تھا ترے ہجر کے آداب سے بھی
کچھ تو اس آنکھ کا شیوہ ہے خفا ہو جانا
اور کچھ بھول ہوئی ہے دلِ بےتاب سے بھی
اے سمندر کی ہَوا تیرا کرم بھی معلوم
پیاس ساحل کی تو بجھتی نہیں سیلاب سے بھی
کچھ تو اُس حسن کو جانے ہے زمانہ سارا
اور کچھ بات چلی ہے مرے احباب سے بھی
دل کبھی غم کے سمندر کا شناور تھا فرازؔؔ
اب تو خوف آتا ہے اک موجۂ پایاب سے بھی
فراز
Leave a Comment