Skip to content

Category: Sad Poetry

This Category will contain all sad poetry

اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے

اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے
اک نظر میری طرف دیکھ تیرا جاتا کیا ہے

میری رسوائی میں تو بھی ہے برابر کا شریک
میرے قصے میرے یاروں کو سناتا کیا ہے

پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مجھ کو
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے

سفرِ شوق میں کیوں کانپتے ہیں پاؤں تیرے
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ اٹھاتا کیا ہے

عمر بھر اپنے گریباں سے الجھنے والے
تو مجھے میرے سائے سے ڈراتا کیا ہے

مر گئے پیاس کے مارے تو اٹھا ابرِ کرم
بجھ گئی بزم تو اب شمع جلاتا کیا ہے

میں تیرا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا
دیکھ کر مجھ کو تیرے ذہن میں آتا کیا ہے

Leave a Comment

کس کی تحویل میں تھے کس کے حوالے ھوئے لوگ

کس کی تحویل میں تھے کس کے حوالے ھوئے لوگ
چشمِ گریہ میں رھے دل سے نکالے ھوئے لوگ

کب سے راھوں میں تری گرد بنے بیٹھے ھیں
تجھ سے ملنے کیلئے وقت کو ٹالے ھوئے لوگ

کہیں آنکھوں سے چھلکنے نہیں دیتے تجھ کو
کیسے پھرتے ھیں ترے خواب سنبھالے ھوئے لوگ

دامنِ صبح میں گرتے ھوئے تاروں کی طرح
جل رھے ھیں تری قربت کے اجالے ھوئے لوگ

یا تجھے رکھتے ھیں یا پھر تیری خواھش دل میں
ایسے دنیا میں کہاں چاھنے والے ھوئے لوگ

Leave a Comment

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے

میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے

عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے

مری روشنی ترے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے

تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتا نہیں
تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے

وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں
مرا جرم تو کوئی اور تھا پہ مری سزا کوئی اور ہے

کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے

جو مری ریاضت نیم شب کو سلیمؔ صبح نہ مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے

Leave a Comment

اَدائیں حشر جگائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

اَدائیں حشر جگائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
خیال حرف نہ پائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

بہشتی غنچوں سے گوندھا گیا صراحی بدن
گُلاب خوشبو چرائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

چمن کو جائے تو دَس لاکھ نرگسی غنچے
زَمیں پہ پلکیں بچھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

ذَہین تتلی کو یہ پنکھڑی لگے شاید
لبوں سے تتلی اُڑائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

حسین تتلیاں ، پانی میں اُس کو دیکھیں تو
اُکھاڑ پھینکیں قبائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

وُہ پنکھڑی پہ اَگر چلتے چلتے تھک جائیں
تو پریاں پیر دَبائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

قدم ، اِرم میں دَھرے ، خوش قدم تو حور و غلام
چراغ گھی کے جلائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

یہ جھاڑو دیتی ہیں پلکوں سے یا حسیں حوریں
قدم کی خاک چرائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

جنہوں نے اُس کی جھلک دیکھی ، حور کا گھونگھٹ
مُحال ہے کہ اُٹھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

خدا نے اِس لیے اُس کو بہشت سے بھیجا
فرشتے کرتے خطائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

جو دیکھ لیں اُسے تو مصر بھر کے شاہی غلام
چھری پہ ہاتھ چلائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

غزال قسمیں ستاروں کی دے کے عرض کریں
حُضور! چل کے دِکھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

وُہ چاند عید کا اُترے جو دِل کے آنگن میں
ہم عید روز منائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

زَمیں پہ خرمنِ جاں رَکھ کے ہوشمند کہیں
بس آپ بجلی گرائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

طلسمِ حُسن ہے موجود لفظوں سے اَفضل
لغت جدید بنائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

خطیب دیکھیں گزرتا تو تھک کے لوگ کہیں
حُضور خطبہ سنائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

حلال ہوتی ہے ’’پہلی نظر‘‘ تو حشر تلک
حرام ہو جو ہٹائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

شریر مچھلیاں کافِر کی نقل میں دِن بھر
مچل مچل کے نہائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

جو شعر جانِ غزل تھا ، وُہ جان کر چھوڑا
کہ آپ مر ہی نہ جائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

Leave a Comment

عجیب دکھ ھے

خطاب آنسو، خطیب دکھ ھے عجیب دکھ ھے
ہو کربلا یا صلیب دکھ ھے، عجیب دکھ ھے

ترے توسط سے جو ملا ھے خوشی ہوئی ھے
پر اس خوشی میں، رقیب دکھ ھے، عجیب دکھ ھے

یہ پڑھنے والے بھی فرق تھوڑا سا جان جائیں
ادب خوشی ھے ادیب دکھ ھے، عجیب دکھ ھے

یہ تیرے جتنا قریب تیرے عزیز ہیں
ہمارے اتنا قریب دکھ ھے، عجیب دکھ ھے

تمہارا دکھ ھے کہ آج تم سے ملا نہیں وہ
اِدھر ہمارا نصیب دکھ ھے، عجیب دکھ ھے

یہ دکھ محبت کا دکھ ھے اس میں علاج کیسا
دوائی دکھ ھے، طبیب دکھ ھے،عجیب دکھ ھے

مرے علاوہ فقط خدا کو پتہ ھے اِس کا
جو میرے دل میں حبیب دکھ ھے، عجیب دکھ ھے

Leave a Comment

عالمِ عشق سے اِس ہجر میں لایا ہُوا ہُوں

عالمِ عشق سے اِس ہجر میں لایا ہُوا ہُوں
آخری اَشک ہوں اور آنکھ میں آیا ہُوا ہُوں

میرے اصراف سے پرہیز کیا جاۓ کہ میں
عہدِ افلاس میں مُشکل سے کمایا ہُوا ہُوں

روح سے روح کا رشتہ بھی بجا ہے لیکن
میں ابھی جسم کی تقریب میں آیا ہُوا ہُوں

جو بھی آتا ہے وہ پیاسا ہی چلا جاتا ہے
میں وہ دریا ہوں جو نظروں سے گرایا ہوا ہوں

کم سے کم تُو تو مِری زات پہ اُنگلی نہ اُٹھا
لاکھ سورج ہوں مگر تجھ پہ تو سایہ ہوا ہوں

مجھ کو تقدیر سے شکوہ ہے نہ قسمت سے گلہ
میں وہ بدبخت جو دانستہ گنوایا ہوا ہوں

ہو چُکے مسخ خدوخال مِرے چہرے کے
میں وہ لاش ہوں جو گلیوں میں پھرایا ہوا ہوں

Leave a Comment

شانوں پہ کس کے اشک بہایا کریں گی آپ ؟

شانوں پہ کس کے اشک بہایا کریں گی آپ ؟
رُوٹھے گا کون ، کس کو منایا کریں گی آپ ؟

وہ جا رھا ھے صُبحِ مُحبت کا کارواں
اب شام کو کہیں بھی نہ جایا کریں گی آپ

اب کون “خود پرست” ستائے گا آپکو ؟؟
کِس بے وفا کے ناز اُٹھایا کریں گی آپ ؟

پہروں شبِ فراق میں تاروں کو دیکھ کر
شکلیں مِٹا مِٹا کے بنایا کریں گی آپ

گمنام الجھنوں میں گُزاریں گی رات دن
بیکار اپنے جی کو جلایا کریں گی آپ

اب لذتِ سماعتِ رھرو کے واسطے
اُونچے سُروں میں گیت نہ گایا کریں گی آپ

ھمجولیوں کو اپنی بسوزِ تصورات
ماضی کے واقعات سُنایا کریں گی آپ

اب وہ شرارتوں کے زمانے گزر گئے
چونکے گا کون ، کِس کو ڈرایا کریں گی آپ ؟

فرقت میں دورِ گوشہ نشینی بھی آئیگا
مِلنے سہیلیوں سے نہ جایا کریں گی آپ

غصے میں نوکروں سے بھی الجھیں گی بار بار
معمولی بات کو بھی بڑھایا کریں گی آپ

پھر اسکے بعد ایک وہ منزل بھی آئیگی
دِل سے مرا خیال ھٹایا کریں گی آپ

حالاتِ نو بہ نو کے مسلسل ھجوم میں
کوشش سے اپنے جی کو لگایا کریں گی آپ

آئے گا پھر وہ دِن بھی تغیر کے دور میں
دل میں کوئی خلش ھی نہ پایا کریں گی آپ

“نقشِ کُہن” کو دل سے مِٹانا ھی چاھئیے
گزرے ھُوئے دِنوں کو بھُلانا ھی چاھئیے

Leave a Comment

ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮯ ﺗﯿﻮﺭ نہیں ﺑﮭﻼ ﭘﺎﺅ ﮔﮯ

ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮯ ﺗﯿﻮﺭ نہیں ﺑﮭﻼ ﭘﺎﺅ ﮔﮯ
ﺍﻥ ﮐﮩﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﮨﻢ ﻧﮯ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺩﮐﮫ ﺑﮭﯽ ﺍﮐﭩﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﮯ
ﺻﻔﺤﺌﮧ ﺯﯾﺴﺖ ﮐﻮ ﭘﻠﭩﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺍﺱ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﺑﮑﮭﺮ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ
ﮐﺴﯽ ﻣﻌﺬﻭﺭ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺍﺳﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﺧﻂ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﻮ ﻟﮑﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﻣﯿﺮﯼ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﮭﻮﻟﮯ ﮔﯽ ﮔﻼﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ
ﺗﻢ ﺍﮔﺮﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﻧﮧ ﺑﻮﻟﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺳﺮﺩ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﮩﮑﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﻨﺎﭨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﻮ ﭼﻮﻣﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺁﺝ ﺗﻮ ﻣﺤﻔﻞ ﯾﺎﺭﺍﮞ ﭘﮧ ﮨﻮ ﻣﻐﺮﻭﺭ ﺑﮩﺖ
ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﭨﻮﭦ ﮐﮯ ﺑﮑﮭﺮﻭ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺍﺏ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺍﺷﮏ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﺮﺍ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭘﻮﻧﭽﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺷﺎﻝ ﭘﮩﻨﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﺏ ﮐﻮﻥ ﺩﺳﻤﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ
ﺑﺎﺭﺷﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯿﮕﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺣﺎﺩﺛﮯ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺟﯿﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺗﻢ ﮨﻮ ﮐﮯ ﻧﮉﮬﺎﻝ
ﮐﺴﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﻮ ﺗﮭﺎﻣﻮ ﮔﮯ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺨﺖ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﮑﯽ ﺑﮭﯽ
ﺗﻢ ﺳﯿﺎﮦ ﺭﻧﮓ ﺟﻮ ﭘﮩﻨﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

وصی شاہ

Leave a Comment
%d bloggers like this: