Skip to content

Category: Sad Poetry

This Category will contain all sad poetry

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی

پات وہ آدھی رات کی، رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی

سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا
ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی

دل کو چمک سکے گا کیا، پھر بھی تراش کے دیکھ لیں
شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی

اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا
اب جو پلٹ کے دیکھئیے، بات تھی کچہ محال بھی

مری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا، بھول گیا سوال بھی

اس کی سخن طرازیاں مرے لئے بھی ڈھال تھیں
اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی

گاہ قریب شاہ رگ، گاہ امید دائم و خواب
اس کی رفاقتوں میں رات، ہجر بھی تھا وصال بھی

اس کے بازوؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے
جسم کی خواہش پہ تھے روح کے اور جال بھی

شام کی نا سمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتا
موج ہوائے کوئے یار، کچھ تو مرا خیال بھی

Leave a Comment

ہمارے مِلنے کے یوں سبھی سلسلے رہینگے

ہمارے مِلنے کے یوں سبھی سلسلے رہینگے
مگر جو ہم میں گِلے رہے ہیں گِلے رہینگے

گھڑی بچھڑنے کی آگئی ہے گلے لگاؤ
وگرنہ دونوں یہاں پہ کب تک کھڑے رہینگے

کبھی تجھے میں کبھی مجھے تُو پکار لینا
نہیں تو جی میں ہزارہا وسوسے رہینگے

یہ میری شاخیں خزاں کے زیرِ اثر رہینگی
جو تیری ٹہنی پہ گُل کھِلے ہیں کھِلے رہینگے

کبھی کہیں جو تِرا مِرا سامنا ہُوا تو
ہم ایک دُوجے کو دم بخُود دیکھتے رہینگے

ہمارے شعروں کے دُکھ میں ڈھلتی ہُوئی یہ شامیں
کہ چائے خانوں میں یوں تِرے تذکرے رہینگے

وہ میکدہ ہو تِری گلی یا مِرا مکاں ہو
یہ قید خانے تو رات بھر ہی کُھلے رہینگے

کل عید کا دن بھی یوں ہی پُردرد ہی رہیگا
جو چاند راتوں میں خط لکھے ہیں لکھے رہینگے

Leave a Comment

اس واسطے لہجے مرے تلوار ہوئے ہیں

اس واسطے لہجے مرے تلوار ہوئے ہیں
چاہت کے سبھی وار جو بیکار ہوئے ہیں

ہر شام امڈ آتی ہے ان آنکھوں میں جو لالی
سب خواب ترے پیار میں مے خوار ہوئے ہیں

جو لوگ خدا تھے کبھی اپنی ہی زمیں کے
وہ آج مرے قدموں سے ہموار ہوئے ہیں

دل جن کا دھڑکتا تھا کبھی یوں نہ اکیلے
اب ذات سے میری وہی بے زار ہوئے ہیں

ہم وجد کے بانی تھے مگر بن کے یوں گھنگھرو
اب یار ترے قدموں کی جھنکار ہوئے ہیں

دشمن کی ضرورت نہیں پڑتی ہے یہاں اب
سب اپنے پیادے ہی یوں غدار ہوئے ہیں

دستور عجب ہے مری بستی کا اے لوگو
وہ لوگ جو قاتل تھے سردار ہوئے ہیں

Leave a Comment

ہے طرفہ تماشا سرِ بازارِ محبت

ہے طرفہ تماشا سرِ بازارِ محبت
سر بیچتے پھرتے ہیں خریدارِ محبت

اللہ کرے تو بھی ہو بیمارِ محبت
صدقے میں چھٹیں گے تیرے گرفتارِ محبت

ابرو سے چلے تیغ تو مژگاں سے چلے تیر
تعزیز کے بھوکے ہیں خطا وارِ محبت

اس واسطے دیتے ہیں وہ ہر روز نیا داغ
اک درد کے خوگر نہ ہوا بیمارِ محبت

کچھ تذکرۃِ عشق رہے حضرتِ ناصح
کانوں کو مزہ دیتی ہے گفتارِ محبت

دل بھول نہ جائے کسی مژگاں کی کھٹک کو
کچھ چھیڑ رہے اے خلشِ خارِ محبت

جو چارہ گر آیا مری بالیں پہ یہ بولا
اللہ کو سونپا تجھے بیمارِ محبت

ثابت قدم ایسی رہِ اُلفت میں نہ ہوں گے
تھا ہم کو تہِ تیخ بھی اقرارِ محبت

دیکھا ہے زمانے کو ان آنکھوں نے تو اے داغؔ
اس رنگ پر اس ڈھنک پر انگارِ محبت​

داغؔ دہلوی​

Leave a Comment

اور تو پاس مرے ہجر میں کیا رکھا ہے

اور تو پاس مرے ہجر میں کیا رکھا ہے
اک ترے درد کو پہلو میں چھپا رکھا ہے

دل سے ارباب وفا کا ہے بھلانا مشکل
ہم نے یہ ان کے تغافل کو سنا رکھا ہے

تم نے بال اپنے جو پھولوں میں بسا رکھے ہیں
شوق کو اور بھی دیوانہ بنا رکھا ہے

سخت بے درد ہے تاثیر محبت کہ انہیں
بستر ناز پہ سوتے سے جگا رکھا ہے

آہ وہ یاد کہ اس یاد کو ہو کر مجبور
دل مایوس نے مدت سے بھلا رکھا ہے

کیا تأمل ہے مرے قتل میں اے بازو یار
ایک ہی وار میں سر تن سے جدا رکھا ہے

حسن کو جور سے بیگانہ نہ سمجھو کہ اسے
یہ سبق عشق نے پہلے ہی پڑھا رکھا ہے

تیری نسبت سے ستم گر ترے مایوسوں نے
داغ حرماں کو بھی سینے سے لگا رکھا ہے

کہتے ہیں اہل جہاں درد محبت جس کو
نام اسی کا دل مضطر نے دوا رکھا ہے

نگہ یار سے پیکان قضا کا مشتاق
دل مجبور نشانے پہ کھلا رکھا ہے

اس کا انجام بھی کچھ سوچ لیا ہے حسرتؔ
تو نے ربط ان سے جو اس درجہ بڑھا رکھا ہے

حسرتؔ موہانی

Leave a Comment

سونے کا ڈھیر بیچ کے مٹی خرید لی

سونے کا ڈھیر بیچ کے مٹی خرید لی
بھوکی نے جسم بیچ کے روٹی خرید لی

میں کہتا ہی رہا مِرے بیٹے زمیں نہ بیچ
پاگل نے ماں کو بیچ کے گاڑی خرید لی

اب گاوں آنے جانے کے بھی سلسلے گئے
بھائی نے شہر میں نئی کوٹھی خرید لی

ہاری نے سارا سُود ہی یٙک مُشت دے دیا
مالک نے کچھ ہزار میں لڑکی خرید لی

میں جیب خرچ کے لئے دیتا رہا مگر
بیٹی نے پیسے جوڑ کے چُنی خرید لی

میلے میں جیب کٹ گئی لیکن یہ شکر ہے
بابا کے واسطے نئی پگڑی خرید لی

اب اِس بڑھاپے میں بھلا کیا وقت دیکھنا
میں نے گھڑی کو بیچ کر جوتی خرید لی

مُتشاعرہ پہ کس لئے ہیں اُنگلیاں اُٹھی
شاعر نے اپنی شاعری بیچی، خرید لی

بیٹی نے پہلی عید پر مانگی تھی مان سے
بوڑھے نے خُون بیچ کر مہندی خرید لی

میثم علی آغا

Leave a Comment

نجانے کیوں دلوں کے سلسلے پیہم نہیں ملتے

نجانے کیوں دلوں کے سلسلے پیہم نہیں ملتے
جہاں پر ہم میسر ہوں وہاں پر تم نہیں ملتے

یقیناً فاصلوں میں اک طرح سے جوش قربت ہے
کنارے ساتھ چلتے ہیں مگر باہم نہیں ملتے

ترستا ہے کوئی اک پل کی راحت کے لیے برسوں
کسی کو چاہ کر بھی زندگی میں غم نہیں ملتے

کہیں ملتا نہیں عشاق کو سامان دلجوئی
کہ اب معشوق کی زلفوں میں پیچ و خم نہیں ملتے

فقیروں کے قدم چومے ہمیشہ کجکلاہوں نے
خزانے خاک کے ذروں میں بھی کچھ کم نہیں ملتے

کسی بھی پیڑ پر کردار کے اب پھل نہیں لگتا
مزاجوں میں مروت کے وہ اب موسم نہیں ملتے

خیالوں کے سفر نے تو ہمیں لٹکا دیا عابد
فلک ہم سے نہیں ملتا , زمیں سے ہم نہیں ملتے

عابد بنوی

Leave a Comment

نئے چراغ بناتے ہوئے نہیں ڈرتا

نئے چراغ بناتے ہوئے نہیں ڈرتا
یہ عشق چاک گھماتے ہوئے نہیں ڈرتا

مرے وسیلے سے جتنے بھی پیڑ روئے ہیں
انہیں میں ہِیر سناتے ہوئے نہیں ڈرتا

حضور! آپ ہی روکیں کہ میں تو پاگل ہوں
کسی سے ہاتھ ملاتے ہوئے نہیں ڈرتا

ہزار بار بتایا کہ بد شگونی ہے
مگر وہ ہونٹ چباتے ہوئے نہیں ڈرتا

میں پیٹ کاٹ کے زندہ ہوں اور ڈرتا ہوں
تُو فن کو بیچ کے کھاتے ہوئے نہیں ڈرتا؟

عجیب شوقِ طبیعت ہے افتخار فلکؔ
کوئی بھی آنکھ لڑاتے ہوئے نہیں ڈرتا

Leave a Comment

بےیقینی، بےثباتی، بےکرانی ،کا سفر

بےیقینی، بےثباتی، بےکرانی ،کا سفر
ہر نفس کا منتظر ہے رائگانی کا سفر

ریگزارِخواب پر ہیں ہجرتوں کے قافلے
چار سو پھیلا ہوا ہے بے نشانی کا سفر

بے تحاشا راستے ،بے انتہا اوارگی
پوچھ مت کیسا رہا بےسائبانی کا سفر

کعبہ ہو ، یا بت کدہ ہو ،ہم نے پایا جابجا
بے نیازی، خودفریبی، لن ترانی کا سفر

کمسنوں کے دامنوں پر حسن کی نوخیزیاں
دیکھ یوں تشکیل پاتا ہے جوانی کا سفر

جسم ہائے ٹوٹتا ہے اے ملائک تخلیہ
جھیل کر ہم آ رہے ہیں زندگانی کا سفر

Leave a Comment

محبت میں غلط فہمی اگر الزام تک پہنچے

محبت میں غلط فہمی اگر الزام تک پہنچے
کسے معلوم کس کا نام کس کے نام تک پہنچے

تیری آنکھوں کے ٹھکرائے ہوئے وہ لوگ تھے شاید
جو اِک شرمندگی ہونٹوں پہ لے کر جام تک پہنچے

سبھی رستوں پہ تھے شعلہ فشاں حالات کے سورج
بہت مشکل سے ہم ان گیسوؤں کی شام تک پہنچے

کسی نے بھی نہ اپنی دھڑکنوں میں دی جگہ جن کو
وہ سارے ولولے میرے دلِ نا کام تک پہنچے

سجا کر آئیں جب سونے کا چشمہ اپنی آنکھوں پر
نظر ہم مفلسوں کی تب کہاں اس بام تک پہنچے

قتیلؔ آئینہ بن جاؤ زمانے میں محبت کا
اگر تم چاہتے ہو شاعری اِلہام تک پہنچے

Leave a Comment
%d bloggers like this: