Skip to content

Category: Sad Poetry

This Category will contain all sad poetry

وہ کہتی ہے، ستارے آنسوؤں میں کیوں چمکتے ہیں؟

وہ کہتی ہے، ستارے آنسوؤں میں کیوں چمکتے ہیں؟
میں کہتا ہوں، محبت روشنی میں رنگ بھرتی ہے

وہ کہتی ہے، ہوا کے ہاتھ میں کیا کیا نہیں آتا؟
میں کہتا ہوں، جو دہلیزوں کے اندر دفن ہوتا ہے

وہ کہتی ہے، زمانے کو دلوں سے رنج کیوں کر ہے؟
میں کہتا ہوں، کہ یہ آزار تو صدیوں کی قسمت ہے

وہ کہتی ہے، تمہارے بعد کیوں بارش نہیں ہوتی
میں کہتا ہوں، مری جاں ہجر صحراؤں میں رہتا ہے

وہ کہتی ہے، کہ خوشیوں میں بھی تم تو رونے لگتے ہو
میں کہتا ہوں، مری آنکھوں کو ساون اچھا لگتا ہے

وہ بولی، تم بھی فرحت زندگی سے روٹھ جاؤ گے
میں بولا، ہاں، یا شاید موت مجھ سے مان جائے گی

وہ بولی، تم خوشی کے گیت کو مایوس کرتے ہو
میں بولا، کیا کروں ان مختصر گیتوں کے موسم کا

وہ بولی، تم تو فرحت خود ہی خود سے ہار جاتے ہو
میں بولا، کیا کروں کمزور ہوں اور بے سہارا ہوں

وہ بولی، کیا یہ سب کچھ اتفاقاً ہے تمہارا غم
میں بولا، یہ بھی ممکن ہے یہ سب کچھ احتراماً ہو

محبت میں غموں کی اس قدر یلغار کیوں،۔۔۔بولی
میں بولا، تم کسی دن یہ تو اپنے آپ سے پوچھو

وہ کہتی ہے، سُنو فرحت! تمہارا خواب کیوں ٹوٹا؟
میں کہتا ہوں، سرابی! دل میں کوئی کھینچ پڑتی تھی

تمہاری شاعری میں زندگی کی سسکیاں کیوں ہیں؟
میں بولا، آنسوؤں کی ابتدائی شکل جو ٹھہری

وہ کہتی ہے، کہ فرحت شاہ! میں کچھ مضطرب سی ہوں
میں کہتا ہوں، سرابی! تم بھی میری روح جیسی ہو

وہ کہتی ہے، تمہیں کیوں خوف آتا ہے ہواؤں سے
میں کہتا ہوں، سرابی! دیپ تو ایسے ہی ہوتے ہیں

وہ کہتی ہے، چلو فرحت!ہوا کے ساتھ چلتے ہیں
میں خاموشی سے اُس کے ساتھ چل دیتا ہوں بجھنے کو

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، تم کہاں غائب ہو صدیوں سے
میں کہتا ہوں، ہزاروں وسوسوں کے درمیاں گم ہوں

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، رات کی بے چینیاں کیا ہیں؟
میں کہتا ہوں، وہی جو دوریوں کے دل میں ہوتی ہیں

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، خوف کا دورانیہ کیا ہے؟
میں کہتا ہوں، جو دل اور غم کا ہوتا ہے مصیبت میں

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، بادلوں کی عمر کتنی ہے؟
میں کہتا ہوں، تمازت کے مطابق پانیوں کے وقت جتنی ہے

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، رات اتنی بے زباں کیوں ہے؟
میں کہتا ہوں، زباں تو درد کی شدت کی ہوتی ہے

وہ کہتی ہے، یہ خاموشی بھی کچھ تو سوچتی ہو گی
میں کہتا ہوں، وہی جو گفتگو کی بھیڑ میں کھو جائے

وہ کہتی ہے کہ فرحت، کچھ دنوں سے بولتے کم ہو
میں کہتا ہوں، کئی دُکھ بولنے سے روک دیتے ہیں

وہ کہتی ہے، مجھے یہ سوچ کر بتلا میں کیسی ہوں
میں کہتا ہوں سرابی! سوچنے میں وقت لگتا ہے

وہ کہتی ہے، ہجومِ بد روِش سے خوف آتا ہے
میں کہتا ہوں، مجھے اُجڑی ہوئی گلیاں ڈراتی ہیں

وہ کہتی ہے مجھے بے حس زمانے سے شکایت ہے
میں کہتا ہوں کہ یہ شکوہ شکایت رائیگاں ہے سب

وہ بولی ، تم کہاں غائب ہوئے رہتے ہو راتوں کو
میں بولا، میں تو بس آوارہ پھرتا ہوں اداسی میں

وہ بولی، فون بھی اکثر بہت انگیج رکھتے ہو
میں بولا، بے سروپا گھنٹیوں سے خوف آتا ہے

وہ بولی، تم بہت کنجوس ہو خط بھی نہیں لکھتے
میں بولا، خط لکھوں تو شاعری ناراض ہوتی ہے

وہ بولی، تم کبھی ملنے چلے آؤ جو ممکن ہو
میں بولا، یہ تو تم نے میرے دل کی بات ہی کہہ دی

وہ بولی، آج موسم میں عجب سی خوشگواری ہے
میں بولا، ہاں یہ موسم پیار سے ملنے کا موسم ہے

وہ کہتی ہے کہ اب آوارگی سے کچھ نہیں حاصل
مجھے حیرت ہے یہ سب کچھ وہ مجھ بادل سے کہتی ہے

وہ کہتی ہے کہ فرحت! بے ضرر رہنا نہیں اچھا
میں کہتا ہوں، کئی اچھائیاں بس میں نہیں ہوتیں

وہ کہتی ہے مری یادوں سے کیونکر دور رہتے ہو
میں کہتا ہوں، تری پرچھائیاں بس میں نہیں ہوتیں

وہ کہتی ہے، تمہاری کچھ دعا بھی تو کوئی ہو گی
میں کہتا ہوں، جہاں تم ہو، یہ راتیں بھی وہیں ہوتیں

عجب سے معنویت سی پلٹ آتی نظاروں میں
تمہیں ہم دیکھتے بھی اور باتیں بھی وہیں ہوتیں

ستارے دیکھنے آتے مجھے تیری محبت میں
وہ کہتی ہے، ستارے اور سپنے جھوٹ ہوتے ہیں

وہ کہتی ہے کہ اب روؤں تو آنسو چبھنے لگتے ہیں
میں کہتا ہوں، کسی شاعر سے آنکھیں مانگ سکتی ہو

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، مضطرب سے لگ رہے ہوکچھ
میں کہتا ہوں کہ دل میں عشق کا مہمان دیکھا ہے

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، کیا پریشانی ہے فرحت جی
میں کہتا ہوں ، کہ سارے شہر کو ویران دیکھا ہے

Leave a Comment

جا کر بھی مری آنکھ سے اوجھل تو نہیں ہے

جا کر بھی مری آنکھ سے اوجھل تو نہیں ہے
تو بھی مری مشکل ہے مرا حل تو نہیں ہے

منزل ہو، اجالے ہوں، بہاریں ہوں کہ ہو تم
یاں کوئی کسی کا بھی مسلسل تو نہیں ہے

خود تیری نظر سے بھی تجھے دیکھا ہے دنیا
تصویر کا وہ رخ بھی مکمل تو نہیں ہے

کرتا ہوں رفو روز گریبان میں اپنا
ہر شخص ترے شہر کا پاگل تو نہیں ہے

ہر روز جھڑی لگتی ہے موسم ہو کوئی بھی
ساون کا مری آنکھ یہ بادل تو نہیں ہے

دل محفلِ یاراں میں بھی دھڑکے نہ مرا اب
اس جا بھی وہی دھڑکا یہ مقتل تو نہیں ہے

اک عمر دلاسہ تھا کہ آنی ہے کوئی کل
آئی ہے تو خدشہ ہے یہ وہ کل تو نہیں ہے

بستی نے مجھے ایسا ڈرایا ہے کہ ڈر ہے
اب پھر سے ٹھکانہ مرا جنگل تو نہیں ہے

جاتے ہیں جہاں سے تو سکوں اتنا ہے ابرک
بن میرے کوئی سانس معطل تو نہیں ہے

اتباف ابرک

Leave a Comment

دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا

دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا
وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا

قبائے جسم کے ہر تار سے گزرتا ہوا
کرن کا پیار مجھے آفتاب کر دے گا

جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں
بدن کو ناؤ لہو کو چناب کر دے گا

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا

انا پرست ہے اتنا کہ بات سے پہلے
وہ اٹھ کے بند مری ہر کتاب کر دے گا

سکوت شہر سخن میں وہ پھول سا لہجہ
سماعتوں کی فضا خواب خواب کر دے گا

اسی طرح سے اگر چاہتا رہا پیہم
سخن وری میں مجھے انتخاب کر دے گا

مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی اپنی
تمہاری یاد کے نام انتساب کر دے گا

پروین شاکر

Leave a Comment

ﺍﺏ ﺗﻮ ﺧﻮﺍﮬﺶ ﮬﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺯﺧﻢ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

ﺍﺏ ﺗﻮ ﺧﻮﺍﮬﺶ ﮬﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺯﺧﻢ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ
ﻟﻤﺤﮧ ﺑﮭﺮ ﮐﻮ ﮬﯽ ﺳﮩﯽ ، ﺍُﺳﮑﻮ ﺑﮭﻼ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﺸﻦِ ﺷﺐ ﻗﺪﺭ ﮐﯽ ﺳﺎﻋﺖ ﺁﺋﯽ
ﺁﺝ ﮬﻢ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﺁﻭﺍﺭﮦ ﮬﻮﺍؤں ﮐﯽ ﺗﮭﮑﻦ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﯾﮟ
ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺸﺎﻥ ﺁﭖ ﻣﭩﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

ﺯﻧﺪﮔﯽ !! ﺍﺏ ﺗﺠﮭﮯ ﺳﻮﭼﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺩﻡ ﮔﮭﭩﺘﺎ ﮬﮯ
ﮬﻢ ﻧﮯ ﭼﺎﮬﺎ ﺗﮭﺎ ، ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﻭﻓﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

ﯾﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮬﻤﯿﮟ ﻣﻘﺮﻭﺽ ﮐﺌﯿﮯ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮬﮯ
ﺩﺳﺖِ ﻗﺎﺗﻞ !! ﺗﯿﺮﺍ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

ﺭﻭﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻮ ﮬﻤﺪﺭﺩ ﺑﮩﺖ ﮬﯿﮟ ﻣﺤﺴﻦ
ﮬﻨﺴﺘﮯ ﮬﻨﺴﺘﮯ ، ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺭُﻻ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

Leave a Comment

وہ باتیں تری وہ فسانے ترے

وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

بس اک داغ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری ، ، آستانے ترے

مظالم ترے عافیت آفریں
مراسم سہانے سہانے ترے

فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی
ہیں بھرپور جب تک خزانے ترے

دلوں کو جراحت کا لطف آ گیا
لگے ہیں کچھ ایسے نشانے ترے

اسیروں کی دولت اسیری کا غم
نئے دام تیرے ، ، پرانے ترے

بس اک زخم نظارہ حصہ مرا
بہاریں تری ، ، آشیانے ترے

فقیروں کا جمگھٹ گھڑی دو گھڑی
شرابیں تری ، ، بادہ خانے ترے

ضمیر صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے

بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم
برے یا بھلے سب زمانے ترے

عدمؔ بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے

عبد الحمید عدم

Leave a Comment

بتاؤ کون کہتا ہے, محبت بس کہانی ہے

بتاؤ کون کہتا ہے, محبت بس کہانی ہے
محبت تو صحیفہ ہے, محبت آسمانی ہے

محبت کو خدارا تم, کبھی بھی جھوٹ نہ سمجھو
محبت معجزہ ہے__ معجزوں کی ترجمانی ہے

محبت پھول کی خوشبو, محبت رنگ تتلی کا
محبت پربتوں کی جھیل کا شفاف پانی ہے

محبت اک ستارہ ہے, وفا کا استعارہ ہے
محبت سیپ کا موتی, بحر کی بیکرانی ہے

زمیں والے بتاؤ کس طرح سمجھیں محبت کو
محبت تو زمیں پر آسمانوں کی نشانی ہے

محبت روشنی ہے, رنگ ہے, خوشبو ہے , نغمہ ہے
محبت اڑتا پنچھی ہے, محبت بہتا پانی ہے

محبت ماؤں کا آنچل, محبت باپ کی شفقت
محبت ہر جگہ, ہر پل, خدا کا نقش ثانی ہے

محبت بہن کی الفت, محبت بھائی کی چاہت
محبت کھیلتا بچہ ہے اور چڑھتی جوانی ہے

محبت حق کا کلمہ ہے, محبت چاشنی من کی
محبت روح کا مرہم, دلوں کی حکمرانی ہے

محبت تو ازل سے ہے,محبت تا ابد ہوگی
محبت تو ہے آفاقی, زمانی نہ مکانی ہے

فنا ہو جاۓ گی دنیا, فنا ہو جائیں گے ہم تم
فقط باقی محبت ہے, محبت جاودانی ہے

Leave a Comment

دل نے وحشت گلی گلی کر لی

دل نے وحشت گلی گلی کر لی
اب گلہ کیا، بہت خوشی کر لی

یار! دل تو بلا کا تھا عیاش
اس نے کس طرح خود کشی کر لی

نہیں آئیں گے اپنے بس میں ہم
ہم نے کوشش رہی سہی کر لی

اب تو مجھ کو پسند آ جاؤ
میں نے خود میں بہت کمی کر لی

یہ جو حالت ہے اپنی، حالتِ زار
ہم نے خود اپنے آپ ہی کر لی

اب کریں کس کی بات ہم آخر
ہم نے تو اپنی بات بھی کر لی

قافلہ کب چلے گا خوابوں کا
ہم نے اک اور نیند بھی کر لی

اس کو یکسر بھلا دیا پھر سے
ایک بات اور کی ہوئی کر لی

آج بھی رات بھر کی بےخوابی
دلِ بیدار نے گھری کر لی

کیا خدا اس سے دل لگی کرتا
ہم نے تو اس سے بات بھی کر لی

جون ایلیاء

Leave a Comment

ہَنگامَہ ہے کیوں بَرپا تھوڑی سی جو پی لی ہے

ہَنگامَہ ہے کیوں بَرپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے

نا تَجرِبَہ کاری سے واعِظ کی یہ ہیں باتیں
اِس رَنگ کو کَیا جانے پُوچھو تَو کبھی پی ہے

اُس مَے سے نہیں مَطلَب دِل جِس سے ہو بیگانہ
مَقصُود ہے اُس مَے سے دِل ہی میں جو کِھنچتی ہے

سُورج میں لَگے دَھبّا فِطرَت کے کَرِشمے ہیں
بُت ہَم کو کہیں کافَر اللہ کی مرضی ہے

اے شوق وہی مَے پی اے ہوش ذرا سو جا
مَہمانِ نَظَر اِس دم ایک برقِ تَجَلّی ہے

ہر ذرّہ چَمکتا ہے اَنوارِ اِلہٰی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تَو خُدا بھی ہے

واں دِل میں کہ صَدمے دو، یاں جی میں کہ سب سَہہ لو
اُن کا بھی عَجّب دِل ہے میرا بھی عَجّب جی ہے

تَعلِیم کا شَور اَیسا تَہذِیب کا غُل اِتنا
بَرکت جو نہیں ہوتی نِیََت کی خرابی ہے

سَچ کہتے ہیں شیخ اکبرؔ ہے طاعَتِ حق لازِم
ہاں تَرکِ مے و شاہد یہ اُن کی بُزرگی ہے

اکبرؔ الہ آبادی

Leave a Comment

جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تو میرا نہیں

جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تو میرا نہیں
مجھ میں کوئی چیخ اُٹھتا ہے ، نہیں ، ایسا نہیں

وارداتِ دل کا قصہ ہے ، غمِ دنیا نہیں
شعر تیری آرسی ہے ، میرا آئینہ نہیں

کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے بعد
اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستا نہیں

تم سمجھتے ہو، بچھڑ جانے سے مٹ جاتا ہے عشق
تم کو اِس دریا کی گہرائی کا اندازہ نہیں

اُن سے مل کر بھی کہاں مٹتا ہے دل کا اضطراب
عشق کی دیوار کے دونوں طرف سایا نہیں

کب تری بوئے قبا سے بے وفائی دل نے کی
کب مجھے بادِ صبا نے خون رُلوایا نہیں

مت سمجھ میرے تبسم کو مسرت کی دلیل
جو مرے دل تک اترتا ہو یہ وہ زینہ نہیں

یوں تراشوں گا غزل میں تیرے پیکر کے نقوش
وہ بھی دیکھے گا تجھے جس نے تجھے دیکھا نہیں

ثبت ہیں اس بام و در پر تیری آوازوں کے نقش
میں ، خدا نا کردہ، پتھر پوجنے والا نہیں

خامشی، کاغذ کے پیراہن میں لپٹی خامشی
عرضِ غم کا اس سے بہتر کوئی پیرایہ نہیں

کب تلک پتھر کی دیواروں پہ دستک دیجئے
تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں

Leave a Comment

یک لحظہ خوشی کا جب انجام نظر آیا

یک لحظہ خوشی کا جب انجام نظر آیا
شبنم کو ہنسی آئی، دِل غنچوں کا بھر آیا

یہ کون تصوّر میں ہنگام سَحَر آیا
محسوس ہوا جیسے خود عرش اُتر آیا

خیر اُس کو نظر آیا، شر اُس کو نظر آیا
آئینے میں خود عکسِ آئینہ نگر آیا

اُس بزم سے دِل لے کر کیا آج اثر آیا
ظالم جسے سمجھے تھے، مظلُوم نظر آیا

اُس جانِ تغافل نے پھر یاد کیا شاید
پھر عہدِ محبت کا ہر نقش نظر آیا

گُلشن کی تباہی پر کیوں رنج کرے کوئی
اِلزام جو آنا تھا دیوانوں کے سر آیا

یہ محفلِ ہستی بھی کیا محفلِ ہستی ہے
جب کوئی اُٹھا پردہ، مَیں خود ہی نظر آیا

جگرؔ مراد آبادی

Leave a Comment
%d bloggers like this: