Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

مجھ سے اونچا ترا قد ہے، حد ہے

مجھ سے اونچا ترا قد ہے، حد ہے
پھر بھی سینے میں حسد ہے؟ حد ہے

میرے تو لفظ بھی کوڑی کے نہیں
تیرا نقطہ بھی سند ہے، حد ہے

تیری ہر بات ہے سر آنکھوں پر
میری ہر بات ہی رد ہے، حد ہے

عشق میری ہی تمنا تو نہیں
تیری نیت بھی تو بد ہے، حد ہے

زندگی کو ہے ضرورت میری
اور ضرورت بھی اشد ہے، حد ہے

بے تحاشہ ہیں ستارے لیکن
چاند بس ایک عدد ہے، حد ہے

اشک آنکھوں سے یہ کہہ کر نکلا
یہ ترے ضبط کی حد ہے؟ حد ہے

روک سکتے ہو تو روکو جاذلؔ
یہ جو سانسوں کی رسد ہے، حد ہے

Leave a Comment

پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں

پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں

راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا

ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار

لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ

سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار

اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ

گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ

اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو

اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا

فیض احمد فیض

Leave a Comment

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم

خموشی سے ادا ہو رسمِ دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم

یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم

وفا، اخلاص، قربانی،مرو ّت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم

سنا دیں عصمتِ مریم کا قصّہ؟
پر اب اس باب کو وا کیوں کریں ہم

زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے
بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کری ہم

ہماری ہی تمنّا کیوں کرو تم
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم

کیا تھا عہد جب لحموں میں ہم نے
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم

اُٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں
فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم

جو اک نسل فرومایہ کو پہنچے
وہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم

نہیں دُنیا کو جب پرواہ ہماری
تو پھر دُنیا کی پرواہ کیوں کریں ہم

برہنہ ہیں سرِبازار تو کیا
بھلا اندھوں سے پردا کیوں کریں ہم

ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی
سو خود پر بھی بھروسہ کیوں کریں ہم

پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں
زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم

یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم

Leave a Comment

لاکھ تم اشک چھپاؤ

لاکھ تم اشک چھپاؤ، ہنسی میں بہلاؤ
چشمِ نمناک بتاتی ہے کہ تم روئے ہو

یہ جو رُخ موڑ کے تم نے کہا نا، “ٹھیک ہوں میں
مجھے آواز بتاتی ہے کہ تم روئے ہو

جو اُترتی ہے “مری” آنکھ میں گاہے گاہے
وہ نمی صاف بتاتی ہے کہ “تم” روئے ہو

چاند چُپ ہے، مگر… بھیگی ہوئی سرگوشی میں
چاندنی رات بتاتی ہے کہ تم روئے ہو

میں تجھے جیت کے ہارا، تری خوشیوں کے لیے
پر مری مات بتاتی ہے کہ تم روئے ہو

یہ جو بے موسمی برسات برستی ہے وصی
راز کی بات بتاتی ہے کہ تم روئے ہو

Leave a Comment

وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے

وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے
جو عشق کو کام سمجھتے تھے
یا کام سے عاشقی کرتے تھے

ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
کام عشق کے آڑے آتا رہا

اور عشق سے کام الجھتا رہا
پھر آخر تنگ آ کر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا۔

فیض احمد فیض

Leave a Comment

دم بہ دم گردشِ دوراں کا گُھمایا ہُوا شخص

دم بہ دم گردشِ دوراں کا گُھمایا ہُوا شخص
ایک دِن حشر اُٹھاتا ہے گرایا ہوا شخص

میں تو خود پر بھی کفایت سے اُسے خرچ کروں
وہ ہے مہنگائی میں مُشکل سے کمایا ہوا شخص

یاد آتا ہے تو آتا ہی چلا جاتا ہے
کارِ بیکارِ زمانہ میں بُھلایا ہوا شخص

دشتِ بے آب میں آواز نہ الفاظ کہِیں
ہر طرف دھوپ تھی پھر پیڑ کا سایہ ہوا شخص

جب ضرورت تھی،اُسی وقت مُجھے کیوں نہ ملا
بس اِسی ضد میں گنوا بیٹھوں گا پایا ہُوا شخص

کیا عجب خوانِ مُقدّر ہی اُٹھا کر پھینکے
ڈانٹ کرخوانِ مُقدّر سے اُٹھایا ہُوا شخص

اپنی شورِیدہ مِزاجی کا کروں کیا “نیّر”
روٹھ کر جا بھی چُکا مان کے آیا ہُوا شخص

Leave a Comment

آپ کیوں صاحبِ اسرار سمجھتے ہیں

آپ کیوں صاحبِ اسرار سمجھتے ہیں مجھے
گھر کے افراد تو بے کار سمجھتے ہیں مجھے

آپ کو میں نے کبھی غور سے دیکھا بھی نہیں
آپ بھی اپنا طلب گار سمجھتے ہیں مُجھے

میرے کردار کی جو قسمیں اٹھاتے تھے کبھی
اب وہی لوگ گناہگار سمجھتے ہیں مجھے

آپ تو وقت گزاری کو مجھے ملتے ہیں
آپ تو شام کا اخبار سمجھتے ہیں مجھے

جب بھی مشکل میں ہوں احباب تو آ جاتے ہیں
کسی درویش کا دربار سمجھتے ہیں مجھے

اہل_ دانش کی نظر میں ہوں میں کم فہم مگر
سارے کم فہم سمجھدار سمجھتے ہیں مجھے

جن کی تلقین پہ میں غم میں ہنسا کرتا ہوں
جانے کیوں اب وہ اداکار سمجھتے ہیں مجھے

میں کہانی کا ہوں اک ثانوی کردار سفیر
اور وہ مرکزی کردار سمجھتے ہیں مجھے

Leave a Comment

میں کہاں تیری داستاں سے الگ؟

میں کہاں تیری داستاں سے الگ؟
کچھ نہیں ُدھول، کارواں سے الگ!
چاند کتنا عزیز تھا ُاس کو__!
رات ٹھہری میرے مکاں سے الگ

فصلِ ُگل میں بھی پھول ُمرجھائے
اک خزاں اور ہے خزاں سے الگ
میرے قاتل نظر نہ آ مجھ کو،
برق رہتی ہے آشیاں سے الگ

سر کو سودائے سنگ ہے لیکن
سنگ ہو تیرے آستاں سے الگ؟
دو جہاں چھوڑ کر ِملو ُاس سے
وہ کہ رہتا ہے دو جہاں سے الگ

آؤ آپس میں فیصلہ کر لیں
کس کو ہونا ہے اب کہاں سے الگ؟
دل میں ُاترا تھا جو کبھی محسنؔ
وہ ستارا تھا آسماں سے الگ _!

“محسن نقوی”

Leave a Comment

حسنِ دلکش کے مضافات میں

حسنِ دلکش کے مضافات میں رہنے والے،
ہم ہیں بے وجہ فسادات میں رہنے والے،

دیکھ ٹپ ٹپ کے ترنم کا مزہ لیتے ہوئے،
کتنے خوش باش ہیں برسات میں رہنے والے،

ہم اسے چاہنے والے تھے، مگر، یاد آیا،
اپنے آبا تو تھے اوقات میں رہنے والے،

اتنے مانوس ہیں تاریکی ء شب سے یارو،
دن نکلنے ہی نہ دیں رات میں رہنے والے،

آنکھ جو دیکھتی ہے سچ ہو، ضروری تو نہیں،
ساتھ ہوتے ہیں کہاں ساتھ میں رہنے والے،

دین سے دور ہوئے جاتے ہیں لمحہ لمحہ،
ہم زمانے کی رسومات میں رہنے والے،

خامشی اتنی پسند آئی اس آوارہ کی،
بات سے روٹھ گئے بات میں رہنے والے،

پیار سے توبہ کی ، آزاد ہوئے، صدقہ دیا ،
پھر ہنسے، ہجر کے خدشات میں رہنے والے،

Leave a Comment

کسی نے کیا وجود پہ

کسی نے کیا وجود پہ جھیلی ہوئی ہے رات
مرے تمام کرب سے کھیلی ہوئی ہے رات

اماوس میں چاند دور کہیں پہ چھپ گیا
اس پل پھر آسماں کی سہیلی ہوئی ہے رات

دن کے اجالے میں چھپ ہی نہیں سکیں
ایسے گناہ سمیٹ پہیلی ہوئی ہے رات

دیوار شب کے پار لمس کی عنایتیں
مانند گلاب عطر وچنبیلی ہوئی ہے رات

دن بھر وصل کی آہٹیں دل کو سنائی دیں
غم ہجر میں کسی نے دھکیلی ہوئی ہے رات

ثروت

Leave a Comment
%d bloggers like this: