Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

مَستئ حال کبھی تھی کہ نہ تھی ، بُھول گئے

مَستئ حال کبھی تھی کہ نہ تھی ، بُھول گئے
یاد اپنی کوئی حالت نہ رھی ، بُھول گئے

حَرمِ ناز و اَدا ، تُجھ سے بچھڑنے والے
بُت گَری بُھول گئے ، بُت شِکنی بُھول گئے

کُوچہء کَج کَلہاں ! تیرے وہ ھجرت زَدگاں
خوُد سَری بُھول گئے ، خوُد نگری بُھول گئے

یُوں مُجھے بھیج کے تنہا سرِ بازارِ فریب
کیا میرے دوست ، میری سادہ دِلی بُھول گئے؟؟

میں تو بے حِس ھُوں، مُجھے درد کا احساس نہیں
چارہ گر کیوں رَوِشِ چارہ گَری بُھول گئے؟؟

مُجھے تاکیدِ شکیبائی کا بھیجا جو پیام
آپ شاید میری شوریدہ سَری بُھول گئے

اب میرے اَشکِ مُحبّت بھی نہیں آپ کو یاد
آپ تو اپنے ھی دامن کی نمی بُھول گئے

اب کوئی مُجھ کو دِلائے نہ مُحبّت کا یقیں
جو مُجھے بُھول نہ سکتے تھے ، وھی بُھول گئے

اور کیا چاھتی ھے گردشِ ایّام کہ ھم ؟؟
اپنا گھر بُھول گئے ، اُس کی گَلی بُھول گئے

کیا کہیں کِتنی ھی باتیں تھیں ، جو اب یاد نہیں
کیا کریں ھم سے بڑی بُھول ھُوئی، بُھول گئے

“جون ایلیاء”

Leave a Comment

یوسف نہ تھے ــ مـــگر سرِ بازار آ گئے

یوسف نہ تھے ــ مـــگر سرِ بازار آ گئے
خوش فہمیاں یہ تھیں ــ کہ خریدار آ گئے

ھم کج ادا چراغ ـ ـ کہ جب بھی ہوا چلی
تاقوں کو چھوڑ کر ــ سرِ دیوار آ گئے

پھر اس طرح ہُوا ـ ـ مجھے مقتل میں چھوڑ کر
سب چارہ ساز ــ جانبِ دربار آ گئے

اَب دل میں حوصلہ ـ ـ نہ سکت بازوں میں ہے
اب کے مقابلے پہ ــ میرے یار آ گئے

آواز دے کے چُھپ گئی ہر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے ــ کہ ہر بار آ گئے

یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے
ہم خواب بیچنے سر بازار آ گئے

سورج کی روشنی پہ ـ ـ جنہیں ناز تھا فرازؔ
وہ بھی تو ــ زیرِ سایۂ دیوار آ گئے

فرازؔ

Leave a Comment

مِرےدِل کےبَست وکُشاد میں یہ نمُودکیسی نمُوکی ہے

مِرےدِل کےبَست وکُشاد میں یہ نمُودکیسی نمُوکی ہے
کبھی ایک دجلہ ہےخُون کا،کبھی ایک بُوندلہُو کی ہے

کبھی چاکِ خوُں سے چِپک گیا ، کبھی خار خار پُرو لِیا
مِرےبخیہ گرنہ ہُوں مُعترض،کہ یہ شکل بھی تورفوُکی ہے

نہ بہار اُن کی بہار ہے، نہ وہ آشیاں کے، نہ وہ باغ کے !
جنھیں ذکر،قیدوقفس کاہے،جنھیں فکر،طوق وگلُوکی ہے

یہی رہگُزر ہے بہار کی، یہی راستہ ہے بہار کا
یہ چمن سےتا بہ دَرِقفَس،جولکِیرمیرےلہُوکی ہے

نہ جنوُں، نہ شورِجنوُں رہا،تِرےوحشیوں کوہُواہےکیا
یہ فِضائے دہر تو مُنتظر ، فقط ایک نعرۂ ہُو کی ہے

ہمیں عُمربھربھی نہ مِل سکی،کبھی اِک گھڑی بھی سُکون کی
دلِ زخم زخم میں چارہ گر! کوئی اِک جگہ بھی رفو کی ہے ؟

تِری چشمِ مَست نے ساقیا! وہ نظامِ کیف بَدل دِیا
مگرآج بھی سَرِمیکدہ،وہی رسم جام وسبُوکی ہے

میں ہزارسوختہ جاں سہی، مِرےلب پہ لاکھ فُغاں سہی
نہ ہونااُمیدابھی عِشق سے،ابھی دِل میں بوندلہُوکی ہے

ابھی رِندہے، ابھی پارسا، تجھے تابش آج ہُوا ہے کیا ؟
کبھی جستجُومئےوجام کی،کبھی فکرآب ووضُوکی ہے.

Leave a Comment

بدل سکا نہ جدائی کے غم اٹھا کر بھی

بدل سکا نہ جدائی کے غم اٹھا کر بھی
کہ میں تو میں ہی رہا تجھ سے دور جا کر بھی

میں سخت جان تھا اس کرب سے بھی بچ نکلا
میں جی رہا ہوں تجھے ہاتھ سے گنوا کر بھی

خدا کرے تجھے دوری ہی راس آ جائے
تو کیا کرے گا بھلا اب یہاں پر آ کر بھی

ابھی تو میرے بکھرنے کا کھیل باقی ہے
میں خوش نہیں ہوں ابھی اپنا گھر لٹا کر بھی

میں اس کو سطح سے محسوس کر کے بھی خوش ہوں
وہ مطمئن ہی نہیں میری تہہ کو پا کر بھی

ابھی تک اس نے کوئی بھی تو فیصلہ نہ کیا
وہ چپ ہے مجھ کو ہر اک طرح آزما کر بھی

اسی ہجوم میں لڑ بھڑ کے زندگی کر لو
رہا نہ جائے گا دنیا سے دور جا کر بھی

وہ لوگ اور ہی تھے جن کا عجز پھل لایا
ہمیں تو کچھ نہ ملا اپنے کو مٹا کر بھی

کھلا یہ بھید کہ تنہائیاں ہی قسمت ہیں
اک عمر دیکھ لیا محفلیں سجا کر بھی

غزل کہے پہ بھی سوچوں کا بوجھ کم نہ ہوا
سکوں نہ مل سکا احوال دل سنا کر بھی

رکا نہ ظلم مرے راکھ بننے پر بھی
ہوا کی خو تو وہی ہے مجھے جلا کر بھی

Leave a Comment

رات کی دھڑکن جب تک جاری رہتی ہے

رات کی دھڑکن جب تک جاری رہتی ہے
سوتے نہیں ہم ذمہ داری رہتی ہے

.
جب سے تو نے ہلکی ہلکی باتیں کیں
یار طبیعت بھاری بھاری رہتی ہے

.
پاؤں کمر تک دھنس جاتے ہیں دھرتی میں
ہاتھ پسارے جب خودداری رہتی ہے

.
وہ منزل پر اکثر دیر سے پہنچے ہیں
جن لوگوں کے پاس سواری رہتی ہے

.
چھت سے اس کی دھوپ کے نیزے آتے ہیں
جب آنگن میں چھاؤں ہماری رہتی ہے

.
گھر کے باہر ڈھونڈھتا رہتا ہوں دنیا
گھر کے اندر دنیا داری رہتی ہے

راحت اندوری

Leave a Comment

کیوں کسی اور کو دُکھ درد سناؤں اپنے

کیوں کسی اور کو دُکھ درد سناؤں اپنے
اپنی آنکھوں سے بھی میں زخم چُھپاؤں اپنے

میں تو قائم ہوں تیرے غم کی بدولت ورنہ
یوں بِکھر جاؤں کہ خود ہاتھ نہ آؤں اپنے

شعر لوگوں کے بہت یاد ہیں اوروں کے لیے
تُو ملے تو میں تُجھے شعر سناؤں اپنے

تیرے رستے کا، جو کانٹا بھی میسر آئے
میں اُسے شوق سے کالر پر سجاؤں اپنے

سوچتا ہوں کہ بُجھا دوں میں یہ کمرے کا دِیا
اپنے سائے کو بھی کیوں ساتھ جگاؤں اپنے

اُس کی تلوار نے وہ چال چلی ہے اب کہ
پاؤں کٹتے ہیں اگر ہاتھ بچاؤں اپنے

آخری بات مُجھے یاد ہے اُس کی انورؔ
روگ اُس کا نہ میں دِل سے لگاؤں اپنے

انورؔ مسعود

Leave a Comment

ہے عجیب شہر کی زندگی نہ سفر رہا نہ قیام ہے

ہے عجیب شہر کی زندگی نہ سفر رہا نہ قیام ہے

کہیں کاروبار سی دوپہر کہیں بد مزاج سی شام ہے

یونہی روز ملنے کی آرزو بڑی رکھ رکھاؤ کی گفتگو

یہ شرافتیں نہیں بے غرض اسے آپ سے کوئی کام ہے

کہاں اب دعاؤں کی برکتیں وہ نصیحتیں وہ ہدایتیں

یہ مطالبوں کا خلوص ہے یہ ضرورتوں کا سلام ہے

وہ دلوں میں آگ لگائے گا میں دلوں کی آگ بجھاؤں گا

اسے اپنے کام سے کام ہے مجھے اپنے کام سے کام ہے

نہ اداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر

کئی سال بعد ملے ہیں ہم ترے نام آج کی شام ہے

کوئی نغمہ دھوپ کے گاؤں سا کوئی نغمہ شام کی چھاؤں سا

ذرا ان پرندوں سے پوچھنا یہ کلام کس کا کلام ہے

Leave a Comment

یہ آنکھیں بہت ستاتی ھیں

یہ آنکھیں بہت ستاتی ھیں
یادوں کے خواب دکھاتی ھیں
مجھے ساری رات جگاتی ھیں
کب دل کے راز چھپاتی ھیں
پلکوں کے دریچے کھولتی ھیں
کچھ اپنی زبان میں بولتی ھیں
بس اپنی بات منواتی ھیں
یہ آنکھیں بہت ستاتی ھیں

اک آن میں فیصلہ کرتی ھیں
یہ کب رسوائی سے ڈرتی ھیں
یہ گھنگرو باندھ ناچتی ھیں
ہر وقت یہ جاگتی رہتی ھیں
اک کھوج میں بھاگتی رہتی ھیں
تھک ھار کے واپس آتی ھیں
یہ آنکھیں بہت ستاتی ھیں

چپکے سے کہیں لڑ جاتی ھیں
پھر خوابوں سے بھر جاتی ھیں
جب جھوٹے شور مچاتی ھیں
یہ روئیں تو دل بھی روتا ھے
کب ان سے جدا یہ ھوتا ھے
یہ دل کو روگ لگاتی ھیں
کیوں پیار کیا پچھتاتی ھیں
یہ آنکھیں بہت ستاتی ھیں

Leave a Comment

‏اک تیرا ہجر دائمی ہے مجھے

‏اک تیرا ہجر دائمی ہے مجھے
ورنہ ہر چیز عارضی ہے مجھے

ایک سایہ مرے تعاقب میں
ایک آواز ڈھونڈتی ہے مجھے

میں سخن میں ہوں اس جگہ کہ جہاں
سانس لینا بھی شاعری ہے مجھے

میں اسے کب کا بھول بھال چکا
زندگی ہے کہ رو رہی ہے مجھے

تہذیب حافی

Leave a Comment

دستِ شب پر دِکھائی کیا دیں گی

دستِ شب پر دِکھائی کیا دیں گی
سلوٹیں روشنی میں اُبھریں گی

گھر کی دیواریں میرے جانے پر
اپنی تنہائیوں کو سوچیں گی

اُنگلیوں کو تراش دوُں، پھر بھی
عادتاً اُس کا نام لکھیں گی

رنگ و بوُ سے کہیں پناہ نہیں
خواہشیں بھی کہاں اَماں دیں گی

ایک خوشبوُ سے بچ بھی جاؤں اگر
دوُسری نکہتیں جکڑ لیں گی

خواب میں تِتلیاں پکڑنے کو
نیندیں بچوں کی طرح دوڑیں گی

کِھڑکیوں پر دبیز پردے ہوں
بارشیں پھر بھی دستکیں دیں گی
پروین شاکر

Leave a Comment
%d bloggers like this: