Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

‏اسی لئے تو کسی کو بتانے والا نہیں

‏اسی لئے تو کسی کو بتانے والا نہیں
کہ تیرا میرا تعلق زمانے والا نہیں

برے لگیں نہ ہمیں کیوں یہ خوبصورت لوگ
کہ ان میں کوئی مرا غم بٹانے والا نہیں

میں اس لئے تجھے بانہوں میں بھرنا چاہتا ہوں
مجھے پتہ ہے تو لاہور آنے والا نہیں

عباس تابش

Leave a Comment

ہمارے شعروں کی کیا حقیقت

ہمارے شعروں کی کیا حقیقت,تمہاری آنکھوں کے ترجمے ہیں
تمہاری آنکھیں کے جن کے جادو, ہزار راتوں کے ترجمے ہیں

جو تم ترقی کی بات لکھنا, تو یہ گواہی بھی ساتھ لکھنا
یہ ٹوٹی گلیاں یہ بھوکے بچے,تمہارے محلوں کے کے ترجمے ہیں

میں اس عدالت کو کیسے مانوں, بدست جابر جو بک گئی ہو
یہ جتنے کاغذ ہیں فیصلوں کے, سب غلاموں کے ترجمے ہیں

ہماری آنکھوں پہ طنز کیسا,ہماری حالت سے وحشتیں کیوں
کہ اپنی آنکھوں کے رتجگے بھی تمہاری نیندوں کے ترجمے ہیں

علی زریون

Leave a Comment

دل بہلتا ہے کہاں انجم و مہتاب سے بھی

دل بہلتا ہے کہاں انجم و مہتاب سے بھی
اب تو ہم لوگ گئے، دیدۂ بے خواب سے بھی

رو پڑا ہوں تو کوئی بات ہی ایسی ہو گی
میں کہ واقف تھا ترے ہجر کے آداب سے بھی

کچھ تو اس آنکھ کا شیوہ ہے خفا ہو جانا
اور کچھ بھول ہوئی ہے دلِ بےتاب سے بھی

اے سمندر کی ہَوا تیرا کرم بھی معلوم
پیاس ساحل کی تو بجھتی نہیں سیلاب سے بھی

کچھ تو اُس حسن کو جانے ہے زمانہ سارا
اور کچھ بات چلی ہے مرے احباب سے بھی

دل کبھی غم کے سمندر کا شناور تھا فرازؔؔ
اب تو خوف آتا ہے اک موجۂ پایاب سے بھی

فراز

Leave a Comment

کدورتوں کے درمیاں ، عداوتوں کے درمیاں

کدورتوں کے درمیاں ، عداوتوں کے درمیاں
تمام دوست ھیں اجنبى ، دوستوں کے درمياں

زمانہ ميرى داستاں پہ رو رھا ھے آج كيوں؟؟
يہی تو كل سنى گئی تھی ، قہقہوں کے درمياں

ضميرِ عصر ميں كبھی ، نوائے درد ميں كبھی
سُخن سَرا تو ميں بھی ھُوں ، صداقتوں کے درمياں

شعور عصر ڈھونڈتا رہدھا ھے مجھ كو اور ميں
مگن ہوں عہد رفتگاں كى ، عظمتوں کے درمياں

ابھی شكست كيا ، كہ رزم آخرى ایک اور ھے
پكارتى ھے زندگی ، ھزيمتوں کے درمياں

ھزار بردباديوں کے ساتھ جى رھے ہمھيں ھم
محال تھا يہ كار زيست ، وحشتوں کے درمياں

يہ سوچتے ھيں كب تلک ، ضمير كو بچائيں گے؟؟
اگر يونہی جيا كيے ، ضرورتوں کے درمياں

“پیرزادہ قاسم”

Leave a Comment

تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں جہاں تک دیکھوں

تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں جہاں تک دیکھوں
حسن یزداں سے تجھے حسن بتاں تک دیکھوں

تو نے یوں دیکھا ہے جیسے کبھی دیکھا ہی نہ تھا
میں تو دل میں ترے قدموں کے نشاں تک دیکھوں

صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں ترا حسن ترے حسن بیاں تک دیکھوں

میرے ویرانۂ جاں میں تری یادوں کے طفیل
پھول کھلتے نظر آتے ہیں جہاں تک دیکھوں

وقت نے ذہن میں دھندلا دیئے تیرے خد و خال
یوں تو میں ٹوٹتے تاروں کا دھواں تک دیکھوں

دل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتا
میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں

اک حقیقت سہی فردوس میں حوروں کا وجود
حسن انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں

احمد ندیم قاسمی

Leave a Comment

بیٹھے ہیں چین سے کہیں جانا تو ہے نہیں

بیٹھے ہیں چین سے کہیں جانا تو ہے نہیں
ہم بے گھروں کا کوئی ٹھکانا تو ہے نہیں

تم بھی ہو بیتے وقت کے مانند ہو بہو
تم نے بھی یاد آنا ہے آنا تو ہے نہیں

عہدِ وفا سے کس لیئے خائف ہو میری جان
کر لو کہ تم نے عہد نبھانا تو ہے نہیں

وہ جو ہمیں عزیز ہے کیسا ہے کون ہے
کیوں پوچھتے ہو ہم نے بتانا تو ہے نہیں

دنیا ہم اہلِ عشق پہ کیوں پھینکتی ہے جال
ہم نے ترے فریب میں آنا تو ہے نہیں

وہ عشق تو کرے گا مگر دیکھ بھال کے
فارسؔ وہ تیرے جیسا دیوانہ تو ہے نہیں

رحمان فارس

Leave a Comment

کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں​

کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں​
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبینِ نیاز میں​

طرب آشنائے خروش ہو،تو نوا ہے محرم گوش ہو​
وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردہء ساز میں​

تو بچا بچا کہ نہ رکھ اسے، تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ​
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں​

دم طوف کرمک شمع نےیہ کہا کہ وہ اثر کہن​
نہ تری حکایت سوز میں،نہ مری حدیث گداز میں​

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی​
مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں​

نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں ،نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں​
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی،نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں​

جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا​
تیرا دل تو ہے صنم آشنا ،تجھے کیا ملےگا نماز میں

علامہ اقبال

Leave a Comment

شانوں پہ کس کے اشک بہایا کرینگی آپ

شانوں پہ کس کے اشک بہایا کرینگی آپ
روٹھے گا کون ، کس کو منایا کرینگی آپ

وہ جارہا ہے صبحِ محبت کا کارواں
اب شام کو کہیں بھی نہ جایا کرینگی آپ

اب کون خود پرست ستائے گا آپ کو
کس بے وفا کے ناز اٹھایا کرینگی آپ

پہروں شبِ فراق میں تاروں کو دیکھ کر
شکلیں مٹا مٹا کے بنایا کرینگی آپ

گمنام اجالوں میں گزاریں گی رات دن
بے کار اپنے جی کو جلایا کرینگی آپ

ہمجولیوں کو اپنے باسوز تصورات
ماضی کے واقعات سنایا کرینگی آپ

اب وہ شرارتوں کے زمانے گزر گئے
چونکے گا کون،کس کو ڈرایا کرینگی آپ

فرقت میں دورِ گوشہ نشینی بھی آئے گا
ملنے سہیلیوں سے نہ جایا کرینگی آپ

پھر اسکے بعد وہ منزل بھی آئے گی
دل سے مرا خیال مٹایا کرینگی آپ

حالاتِ نو بہ نو کے مسلسل ہجوم میں
کوشش سے اپنے جی کو جلایا کرینگی آپ

آئے گا پھر وہ دور بھی تغیر کے دور میں
دل میں کوئی خلش ہی نہ پایا کرینگی آپ

جون ایلیاء

Leave a Comment

مکاں سے لا مکاں کے داٸرے طے کر رہا ہوں

مکاں سے لا مکاں کے داٸرے طے کر رہا ہوں
اُسے پہچاننے کے مرحلے طے کر رہا ہوں

مصلّے پر جو بیٹھا اُڑ رہا ہوں سُوٸے کعبہ
تو سر بستہ سفر کے سلسلے طے کر رہا ہوں

ابھی لا علم ہوں میں عشق کی سب منزلوں سے
ابھی تو میں خرَد کے راستے طے کر رہا ہوں

تساہُل کے بچھونے پر میں سویا ہوں بظاہر
مگر اِس نیند میں بھی رتجگے طے کر رہا ہوں

مجھے پھر چاند کی کرنوں نے شب بھر چاٹنا ہے
ابھی سُورج کے میں کچھ مسٸلے طے کر رہا ہوں

وحیدُالعصر سے کہہ دو کہ وہ چہرہ چھپا لے
میں اُس کے واسطے اب آٸینے طے کر رہا ہوں

دما دم آنسووں کا رقص ہے آنکھوں میں میری
دما دم میں غناٸی غم کدے طے کر رہا ہوں

عیاں ہے وہ مرے دل کے نہاں خانوں میں واصف
میں راہ ِ شوق میں کیوں آبلے طے کر رہا ہوں

Leave a Comment

بس اک اسی پہ تو پوری طرح عیاں ہوں میں

بس اک اسی پہ تو پوری طرح عیاں ہوں میں
!وہ کہہ رہا ہے مجھے رائگاں، تو ہاں! ہوں میں

جسے دکھائی دوں، میری طرف اشارہ کرے
مجھے دکھائی نہیں دے رہا کہاں ہوں میں

میں خود کو تجھ سے مٹاؤں گا احتیاط کے ساتھ
تو بس نشان لگا دے، جہاں جہاں ہوں میں

کسی نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ تو بھول گیا
ابھی کسی نے بتایا تو تھا، فلاں ہوں میں

ہر ایک شخص کو اپنی پڑی ہوئی ہے یہاں
مرا خیال ہے اپنوں کے درمیاں ہوں میں

میں کس سے پوچھوں یہ رستہ درست ہے کہ غلط؟
جہاں سے کوئی گزرتا نہیں، وہاں ہوں میں

ادھر ادھر سے نمی کا رساؤ رہتا ہے
سڑک سے نیچے بنایا گیا مکاں ہوں میں

جبیں پہ ہجر کی تحریر درج کرنے میں
کسی پرانے قلم کی طرح رواں ہوں میں

!…عمیر نجمی

Leave a Comment
%d bloggers like this: