Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

ایسا نہیں کہ ہم کو محبت نہیں مِلی​

ایسا نہیں کہ ہم کو محبت نہیں مِلی​
ہم جیسی چاہتے تھے وہ قُربت نہیں مِلی​

ملنے کو زندگی میں کئی ہمسفر ملے​
لیکن طبیعتوں سے طبیعت نہیں ملی​

چہروں کے ہر ہجوم میں ہم ڈُھونڈتے رہے​
صُورت نہیں ملی کہیں سیرت نہیں ملی​

وہ یک بیک ملا تو بہت دیر تک ہمیں​
الفاظ ڈُھونڈنے کی بھی مُہلت نہیں ملی​

اُس کو گِلہ رہا کہ توجہ نہ دی اُسے​
لیکن ہمیں خُود اپنی رفاقت نہیں ملی​

ہر شخص زندگی میں بہت دیر سے مِلا​
کوئی بھی چیز حسبِ ضرُورت نہیں ملی​

( اعتبار ساجد )

Leave a Comment

سرِ صحرا حباب بیچے ہیں

سرِ صحرا حباب بیچے ہیں
لبِ دریا سراب بیچے ہیں

اور تو کیا تھا بیچنے کے لئے
اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں

خود سوال ان لبوں سے کر کےمیں
خود ہی ان کے جواب بیچے ہیں

زلف کوچوں میں شانہ کش نے تیرے
کتنے ہی پیچ و تاب بیچے ہیں

شہر میں ہم خراب حالوں نے
حال اپنے خراب بیچے ہیں

جانِ من تیری بے نقابی نے
آج کتنے نقاب بیچے ہیں

میری فریاد نے سکوت کے ساتھ
اپنے لب کے عذاب بیچے ہیں

جون ایلیا

Leave a Comment

Yeh Ghazi Yeh Tere Pur Israar Banday

Yeh Ghazi Yeh Tere Pur Israar Banday
Jinhain Tu ne Bakhsha hai Zauq-e-Khudai

Yeh Ghazi Yeh Tere Pur Asraar Banday.
Do Neem in ki Thokar se Sehra-o-Darya

Simat kar Pahar in ki Haibat se Raayee
Yeh Ghazi Yeh Tere Pur Asrar Banday

Do Alam se Karti hai Begaana Dil ko
Ajab Cheez hai Lazzat-e-Ashnayee

Shahadat hai Maqsood-o-Matoob-e-Momin
Na Maal-e-Ghanimat na kishwar kushayee

Kiya Tu ne Sehra Nasheenon ko Yakta
Khabar mai Nazar mai Azaan-e-Sahar mai

Talab jis ki Sadyon se thi Zindagi ko
Woh Soz Us ne paya in hi ke jigar mai

Yeh Ghazi Yeh Tere Pur Israar Banday
Jinhain Tu ne Bakhsha hai Zauq-e-Khudai

Kushad-e-Dar-Dil samajhtay hain usko
Halakat nahai maut in ki Nazar mai

Dil-e-Mard-e-Momin mai phir Zinda kar dai
Woh Bijli thi ke Nara-e-La Tazar mai

Azaaim ko Seenon mai Bedaar kar dai
Nigah-e-Musalma’n ko Talwar kar dai

Yeh Ghazi Yeh Tere Pur Israar Banday
Jinhain Tu ne Bakhsha hai Zauq-e-Khudai

Leave a Comment

ہم اس جہان سے ارمان لے کے جائیں گے

ہم اس جہان سے ارمان لے کے جائیں گے،
خدا کے گھر یہی سامان لے کے جائیں گے

یہ ولولے تو میری جان لے کے جائیں گے
یہ ذوق شوق تو ایمان لے کے جائیں گے

وہ وقت نزع نہ آئیں عدو کے کہنے سے،
ہم اور غیر اک احسان لے کے جائیں گے

بیاں کریں گے ترے ظلم ہم قسم کھا کر
خدا کے سامنے قرآن لے کے جائیں گے

چڑھی نہ تربت مجنوں پہ آج چادر
ہم اپنا چاکِ گریبان لے کے جائیں گے

ہمیں یہ فکر ہے کہ دل سوچ سمجھ کے دیں
اُنہیں یہ ضد اسی آن لے کے جائیں گے

صنم کدے کے ہوےہم نہ مئے کدے کے ہوئے
یہ داغ دل میں مسلمان لے کے جائیں گے

بھرے ہیں کعبہ دل میں حسرت و ارمان
مراد اپنی یہ مہمان لے کے جائیں گے

لگا کے لائیں ہیں غیروں کو آپ اپنے ساتھ
یہاں سے کیا یہ نگہبان لے کے جائیں گے

بغیر وصل کا وعدہ لیے نہ ٹلیں گے ہم
یہ عہد لے کے یہ پیمان لے کے جائیں گے

پھنسا رہے گا دل مبتلا تو دنیا میں
گناہ کس میں پھر انسان لے کے جائیں گے

کچھ آگیا میرے آگےدیا لیا میرا
یقین تھا وہ میری جان لے کے جائیں گے۔
داغ دہلوی

Leave a Comment

یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے

یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
کہاں لے جاؤں تجھے اے دلِ تنہا میرے
وہی محدود سا حلقہ ہے شناسائی کا
یہی احباب مرے ہیں، یہی اعدا میرے
میں تہِ کاسہ و لب تشنہ رہوں گا کب تک
تیرے ہوتے ہوئے، اے صاحبِ دریا میرے
مجھ کو اس ابرِ بہاری سے ہے کب کی نسبت
پر مقدر میں وہی پیاس کے صحرا میرے
دیدہ و دل تو ترے ساتھ ہیں اے جانِ فراز
اپنے ہمراہ مگر خواب نہ لے جا میرے
احمد فراز

Leave a Comment

اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے

اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے

ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے

جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے​

راحت اندوری

Leave a Comment

ہم تو یوں خوش تھے کہ اک تار گریبان میں ہے

ہم تو یوں خوش تھے کہ اک تار گریبان میں ہے
کیا خبر تھی کہ بہار اس کے بھی ارمان میں ہے

ایک ضرب اور بھی اے زندگیِ تیشہ بدست
سانس لینے کی سکت اب بھی مری جان میں ہے

میں تجھے کھو کے بھی زندہ ہوں یہ دیکھا تو نے
کس قدر حوصلہ ہارے ہوئے انسان میں ہے

فاصلے قرب کے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں
میں ترے شہر سے دُور اور تُو مرے دھیان میں ہے

سرِ دیوار فروزاں ہے ابھی ایک چراغ
اے نسیمِ سحری! کچھ ترے امکان میں ہے

دل دھڑکنے کی صدا آتی ہے گاہے گاہے
جیسے اب بھی تری آواز مرے کان میں ہے

خلقتِ شہر کے ہر ظلم کے با وصف فراز
ہائے وہ ہاتھ کہ اپنے ہی گریبان میں ہے

احمد فراز

Leave a Comment

مَیں کیوں نہ ترکِ تعلق کی ابتدا کرتا

مَیں کیوں نہ ترکِ تعلق کی ابتدا کرتا
وہ دُور دیس کا باسی تھا کیا وفا کرتا؟

وہ میرے ضبط کا اندازہ کرنے آیا تھا
مَیں ہنس کے زخم نہ کھاتا تو اور کیا کرتا؟

ہزار آئینہ خانوں میں بھی مَیں پا نہ سکا
وہ آئینہ جو مجھے خود سے آشنا کرتا

غمِ جہاں کی محبت لُبھا رہی تھی مجھے
مَیں کس طرح تیری چاہت پہ آسرا کرتا؟

اگر زبان نہ کٹتی تو شہر میں “محسن”
مَیں پتھروں کو بھی اِک روز ہمنوا کرتا
محسن نقوی

Leave a Comment

آدمی آدمی سے ملتا ہے

آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے

آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا
رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے

سلسلہ فتنۂ قیامت کا
تیری خوش قامتی سے ملتا ہے

مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے

کاروبار جہاں سنورتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے

روح کو بھی مزا محبت کا
دل کی ہم سائیگی سے ملتا ہے

جگر مراد آبادی

Leave a Comment

پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے​

پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے​
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے​

​پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں​
رت آئی پیلے پھولوں کی تم یاد آئے​

​پھر کاگا بولا گھر کے سونے آنگن میں​
پھر امرت رس کی بوند پڑی تم یاد آئے​

​پہلے تو میں چیخ کے رویا اور پھر ہنسنے لگا​
بادل گرجا بجلی چمکی تم یاد آئے​

​دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا​
جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے​

​ناصر کاظمی

Leave a Comment
%d bloggers like this: