Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

عہدِ گم گشتہ کی تصویر دکھاتی کیوں ہو

عہدِ گم گشتہ کی تصویر دکھاتی کیوں ہو؟
ایک آوارۂ منزل کو ستاتی کیوں ہو؟

وہ حسیں عہد جو شرمندۂ ایفا نہ ہوا
اس حسیں عہد کا مفہوم جتاتی کیوں ہو

زندگی شعلۂ بے باک بنا لو اپنی
خود کو خاکسترِ خاموش بناتی کیوں ہو

میں تصوّف کے مراحل کا نہیں ہوں قائل
میری تصویر پہ تم پھول چڑھاتی کیوں ہو؟

کون کہتا ہے کہ آہیں ہیں مصائب کا علاج
جان کو اپنی عبث روگ لگاتی کیوں ہو؟

ایک سرکش سے محبت کی تمنّا رکھ کر
خود کو آئین کے پھندوں میں پھنساتی کیوں ہو

میں سمجھتا ہوں تقدّس کو تمدّن کا فریب!
تم رسومات کو ایمان بناتی کیوں ہو؟

جب تمہیں مجھ سے زیادہ ہے زمانے کا خیال
پھر مری یاد میں یوں اشک بہاتی کیوں ہو؟

تم میں ہمّت ہے تو دنیا سے بغاوت کر دو
ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو ؟

Leave a Comment

اب کے سفر ہی اور تھا، اور ہی کچھ سراب تھے

اب کے سفر ہی اور تھا، اور ہی کچھ سراب تھے
دشتِ طلب میں جا بجا، سنگِ گرانِ خواب تھے

حشر کے دن کا غلغلہ، شہر کے بام و دَر میں تھا
نگلے ہوئے سوال تھے، اُگلے ہوئے جواب تھے

اب کے برس بہار کی، رُت بھی تھی اِنتظار کی
لہجوں میں سیلِ درد تھا، آنکھوں میں اضطراب تھے

خوابوں کے چاند ڈھل گئے تاروں کے دم نکل گئے
پھولوں کے ہاتھ جل گئے، کیسے یہ آفتاب تھے!

سیل کی رہگزر ہوئے، ہونٹ نہ پھر بھی تر ہوئے
کیسی عجیب پیاس تھی، کیسے عجب سحاب تھے!

عمر اسی تضاد میں، رزقِ غبار ہو گئی
جسم تھا اور عذاب تھے، آنکھیں تھیں اور خواب تھے

صبح ہوئی تو شہر کے، شور میں یوں بِکھر گئے
جیسے وہ آدمی نہ تھے، نقش و نگارِ آب تھے

آنکھوں میں خون بھر گئے، رستوں میں ہی بِکھر گئے
آنے سے قبل مر گئے، ایسے بھی انقلاب تھے

ساتھ وہ ایک رات کا، چشم زدن کی بات تھا
پھر نہ وہ التفات تھا، پھر نہ وہ اجتناب تھے

ربط کی بات اور ہے، ضبط کی بات اور ہے
یہ جو فشارِ خاک ہے، اِس میں کبھی گلاب تھے

اَبر برس کے کھُل گئے، جی کے غبار دھُل گئے
آنکھ میں رُو نما ہوئے، شہر جو زیرِ آب تھے

درد کی رہگزار میں، چلتے تو کِس خمار میں
چشم کہ بے نگاہ تھی، ہونٹ کہ بے خطاب تھے

Leave a Comment

اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں

اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں
اب شوق کا کچھ اور ہی عالم ہے مری جاں

اب تذکرہء خندۂ گل بار ہے جی پر
جاں وقفِ غمِ گریۂ شبنم ہے مری جاں

رخ پر ترے بکھری ہوئی یہ زلف سیہ تاب
تصویر پریشانیٔ عالم ہے مری جاں

یہ کیا کہ تجھے بھی ہے زمانے سے شکایت
یہ کیا کہ تری آنکھ بھی پرنم ہے مری جاں

ہم سادہ دلوں پر یہ شبِ غم کا تسلط
مایوس نہ ہو اور کوئی دَم ہے مری جاں

یہ تیری توجہ کا ہے اعجاز کہ مجھ سے
ہر شخص ترے شہر کا برہم ہے مری جاں

اے نزہتِ مہتاب ترا غم ہے مری زیست
اے نازشِ خورشید ترا غم ہے مری جاں

Leave a Comment

نہیں” مطلب نہیں اُس کی نہیں کا”

نہیں” مطلب نہیں اُس کی نہیں کا”
یہ دل سمجھا نہیں پاگل کہیں کا

ستارے ماند ہیں سب تیرے ہوتے
کہ تُو ہے چاند، وہ بھی چودھویں کا

میں روتا ہوں تو روتے ہیں در و بام
مکاں بھی دکھ سمجھتا ہے مکیں کا

یہ کیسے موڑ پر چھوڑا ہے تُو نے
مجھے چھوڑا نہیں تُو نے کہیں کا

کئے سجدے کچھ اتنے اُس کے در پر
نشاں سا پڑ گیا میری جبیں کا

لباسِ سُرخ میں ملبوس لڑکی
چھلکتا جام حُسنِ احمریں کا

مری گردن تک آ پہنچا تو جانا
مرا تو ہاتھ ہے سانپ آستیں کا

نہ جانے بات کیا تھی اُس گلی میں
کہ ہو کر رہ گیا فارس وہیں کا

رحمان فارس

Leave a Comment

آسماں سے بھی ہم اتارے گئے

آسماں سے بھی ہم اتارے گئے
اور زمیں پر بھی کب سنوارے گئے
جیسے کٹتی ہیں ہجر کی راتیں
زیست ہم تجھ سے یوں گزارے گئے
بے رخی تک نہ بات پہنچی تھی
ہم عنایات میں ہی مارے گئے
جن کی خاطر پچھاڑا طوفاں کو
سب سے پہلے وہی کنارے گئے
ہم نے مڑ کر تمہی کو ڈھونڈا ہے
جب جہاں جس گھڑی پکارے گئے
نہ جگہ تھی ہماری جس دل میں
ہم اسی دل میں کیوں اتارے گئے
بولو وہ کیا کریں بصارت کا
جن کی آنکھوں کے سب نظارے گئے
جینا آسان ہو گیا تیرا
جب سے ابرک ترے سہارے گئے

اتباف ابرک

Leave a Comment

غرورِنار میرے پاؤں میں پڑا ہوا تھا

غرورِنار میرے پاؤں میں پڑا ہوا تھا
میں خاک تھا سو میرا مرتبہ بڑا ہوا تھا

میں چاہتا تھا بتا دوں کہ دیوتا نہیں مَیں
مگر وہ حُسن مِرے نور سے ڈرا ہوا تھا

میں چاہتا تو زبانیں خاموش کر دیتا
مگر میں چپ تھا تیرے حکم پر رکا ہوا تھا

رحیم دن تھے،شفق دھوپ تھی،سجل شامیں
اِنھی دنوں میں مِرا تجھ سے رابطہ ہوا تھا

سو مَیں نے بات بدل دی گلے لگا کے اُسے
دُرست شخص غلط بات پر اڑا ہوا تھا

میرے خلاف تیرے کان کیوں نا بھرتے یہ لوگ
تیری جبیں پہ میرا نام جو لکھا ہوا تھا

سو ماں کی قبر پہ پہنچا لپٹ کے رونے لگا
دلیر بیٹا کسی بات پر دکھا ہوا تھا

ہم ایک ساتھ تھے اور اپنی اپنی نیند میں تھے
وہ سو رہی تھی علی اور میں۔۔۔ مرا ہوا تھا

Leave a Comment

وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے

وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے
وہ بھی چڑھتے ہوئے سورج کے پجاری نکلے

سب کے ہونٹوں پہ مرے بعد ہیں باتیں میری
میرے دشمن مرے لفظوں کے بھکاری نکلے

اک جنازہ اٹھا مقتل میں عجب شان کے ساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے

ہم کو ہر دور کی گردش نے سلامی دی ہے
ہم وہ پتھر ہیں جو ہر دور میں بھاری نکلے

عکس کوئی ہو خد و خال تمہارے دیکھوں
بزم کوئی ہو مگر بات تمہاری نکلے

اپنے دشمن سے میں بے وجہ خفا تھا محسنؔ
میرے قاتل تو مرے اپنے حواری نکلے

Leave a Comment

سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اُس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے ربط ھے اُس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے دن میں اُسے تتلیاں ستاتی ہیں
سُنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُسے بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ھُنر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے درد کی گاہگ ہے چشمِ ناز اُس کی
سو ہم بھی اُس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے حشر ہیں اُس کی غزال سی آنکھیں
سُنا ہے اُس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کی سیاہ چشمگیں قیامت ہے
سو اُس کو سُرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بامِ فلک سے اُتر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اُس کی
سُنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پر الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کے شبستاں سے مُتصل ہے بہشت
مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اُس کی
جو سادہ دل ہیں اُسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ اِمکاں میں
پلنگ زاویے اُس کی کمر کے دیکھتے ہیں
رُکے تو گردشیں اُس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اُس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
بس اِک نگاہ سے لُٹتا ہے قافلہ دل کا
سو راہروانِ تمنّا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
اب اُس کے شہر میں ٹھہریں یا کُوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

Leave a Comment

عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں

عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں
رات بستر پہ میں سوتا نہیں مر جاتا ہوں

اکثر اوقات بھرے شہر کے سناٹے میں
اس قدر زور سے ہنستا ہوں کہ ڈر جاتا ہوں

مجھ سے پوچھے تو سہی آئینہ خانہ میرا
خال و خد لے کے میں ہم راہ کدھر جاتا ہوں

دل ٹھہر جاتا ہے بھولی ہوئی منزل میں کہیں
میں کسی دوسرے رستے سے گزر جاتا ہوں

سہما رہتا ہوں بہت حلقۂ احباب میں میں
چار دیوار میں آتے ہی بکھر جاتا ہوں

میرے آنے کی خبر صرف دیا رکھتا ہے
میں ہواؤں کی طرح ہو کے گزر جاتا ہوں

میں نے جو اپنے خلاف آپ گواہی دی ہے
وہ ترے حق میں نہیں ہے تو مکر جاتا ہوں

Leave a Comment

اس عالمِ حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا

اس عالمِ حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا
کوئی پسند مثال نہیں بنتی، کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا

اک عمر نمو کی خواہش میں موسم کے جبر سہے تو کھُلا
ہر خوشبو عام نہیں ہوتی، ہر پھول گلاب نہیں ہوتا

اس لمحۂ خیر و شر میں کہیں اک ساعت ایسی ہے جس میں
ہر بات گناہ نہیں ہوتی، سب کارِ ثواب نہیں ہوتا

میرے چاروں طرف آوازیں اور دیواریں پھیل گئیں لیکن
کب تیری یاد نہیں آتی اور جی بیتاب نہیں ہوتا

یہاں منظر سے پس منظر تک حیرانی ہی حیرانی ہے
کبھی اصل کا بھید نہیں کھلتا، کبھی سچا خواب نہیں ہوتا

کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو، اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی دل پر آنچ نہیں آتی، کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا

میری باتیں جیون سپنوں کی، میرے شعر امانت نسلوں کی
میں شاہ کے گیت نہیں گاتا، مجھ سے آداب نہیں ہوتا

(سلیم کوثر)

Leave a Comment
%d bloggers like this: