Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

فراز اب کوئی سودا کوئی جنوں بھی نہیں

فراز اب کوئی سودا کوئی جنوں بھی نہیں
مگر قرار سے دن کٹ رہے ہوں یوں بھی نہیں

لب و دہن بھی ملا گفتگو کا فن بھی ملا
مگر جو دل پہ گزرتی ہے کہہ سکوں بھی نہیں

نہ جانے کیوں مری آنکھیں برسنے لگتی ہیں
جو سچ کہوں تو کچھ ایسا اداس ہو ں بھی نہیں

مری زباں کی لکنت سے بدگمان نہ ہو
جو تو کہے تو تجھے عمر بھر ملوں بھی نہیں

دکھوں کے ڈھیر لگے ہیں کہ لوگ بیٹھے ہیں
اسی دیار کا میں بھی ہوں اور ہوں بھی نہیں

فراز جیسے دیا قربتِ ہوا چاہے
وہ پاس آۓ تو ممکن ہے میں رہوں بھی نہیں

احمد فراز

Leave a Comment

عکس خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی

عکس خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی

کانپ اُٹھتی ہوں یہی سوچ کہ تنہائی میں
میرے چہرے پہ تیرا نام نہ پڑھ لے کوئی

جس طرح خواب میرے ہو گئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی

میں تو اس دن سے ہراساں ہوں کہ جب حکم ملے
خشک پھولوں کو کتابوں میں نہ رکھے کوئی

اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس اُمید پہ دروازے سے جھانکے کوئی

کوئی آہٹ، کوئی آواز، کوئی چاپ نہیں
دِل کی گلیاں بڑی سنسان ہیں آئے کوئی

پروین شاکر

Leave a Comment

ﻭﮦ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﯾﺎﺭ ﺗﮭﺎ ﺩﯾﺮ ﮐﺎ

ﻭﮦ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﯾﺎﺭ ﺗﮭﺎ ﺩﯾﺮ ﮐﺎ
ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﺑﺴﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ
ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﺁ ﺑﺴﺎ

ﯾﮩﯽ ﺁﻧﺎ ﺟﺎﻧﺎ ﮬﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ
ﮐﮩﯿﮟ ﺩﻭﺳﺘﯽ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﺟﻨﺒﯽ
ﯾﮩﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﮐﺎﺭِ ﺣﯿﺎﺕ ﮬﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﻗُﺮﺏ ﮐﺎ، ﮐﺒﮭﯽ ﺩُﻭﺭ ﮐﺎ

ﻣﻠﮯ ﺍِﺱ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮒ ﺭﻭﺍﮞ ﺩﻭﺍﮞ
ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮯ ﻭﻓﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎ ﻭﻓﺎ
ﮐﭩﯽ ﻋُﻤﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﯾﮩﺎﮞ ﻭﮬﺎﮞ
ﮐﮩﯿﮟ ﺩﻝ ﻟﮕﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﻧﮧ ﻟﮕﺎ

ﮐﻮﺋﯽ ﺧُﻮﺍﺏ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﮭﯽ ﮬﮯ ﯾﮩﺎﮞ
ﺟﺴﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﺘﮯ ﮬﻮﮞ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ
ﮐﺴﯽ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﺷﺐِ ﻭﺻﻞ ﮐﺎ
ﮐﺴﯽ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﻏﻢِ ﯾﺎﺭ ﮐﺎ

ﻭﮦ ﺟﻮ ﺍِﺱ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ
ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮦ ﮬﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﺷﮩﺮ ﺿﺮﻭﺭ ﮬﮯ
ﺍﻧﮩﯽ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﺍ ﮬُﻮﺍ

ﯾُﻮﻧﮩﯽ ﮬﻢ ﻣُﻨﯿﺮؔ ﭘﮍﮮ ﺭﮬﮯ
ﮐﺴﯽ ﺍِﮎ ﻣﮑﺎﮞ ﮐﯽ ﭘﻨﺎﮦ ﻣﯿﮟ
ﮐﮧ ﻧﮑﻞ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﻨﺎﮦ ﺳﮯ
ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺩَﻡ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ

منیر نیازی

Leave a Comment

خود داریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے

خود داریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کر سکے

ہو کر خرابِ مے ترے غم تو بھلا دیئے
لیکن غمِ حیات کا درماں نہ کر سکے

ٹوٹا طلسمِ عہد محبّت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے

ہر شے قریب آ کے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاجِ شوق گریزاں نہ کر سکے

کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کر سکے

مایوسیوں نے چھین لیے دل کے ولولے
وہ بھی نشاطِ روح کا ساماں نہ کر سکے

ساحر لدھیانوی

Leave a Comment

زاہد بدل گیا ہے سیانا بدل گیا

زاہد بدل گیا ہے سیانا بدل گیا
ڈنکے کی چوٹ پر ہے زمانہ بدل گیا

الٹا ہماری نسل نے سارا نظام یوں
اپنے بڑوں سے بچوں کا رتبہ بدل گیا

کہہ دو مسافروں سے نہ آئیں وہ لوٹ کر
رستہ یہ ان کے جاتے ہی رستہ بدل گیا

پلٹا تھا احتیاط سے ہم نے ورق ورق
جانے یہ کس مقام پہ قصہ بدل گیا

آرام، عیش خوب ہے ویران گھر میں اب
تنہائیوں سے جب ڈرے ، کمرہ بدل گیا

اتنا تو گر نہ پایا کہ گالی میں دے سکوں
گالی پہ مسکرایا ، ہاں اتنا بدل گیا

لکیں بھی ڈرتے ڈرتے جھپکتا ہوں آج کل
اس بیچ گر جہان کا نقشہ بدل گیا

ہر بار تیری شرطوں پہ تجھ کو منایا ہے
ہر بار زندگی ترا جھگڑا بدل گیا

صیاد نے اڑا دیا پنچھی فضاوں میں
پنچھی کو یوں لگا ہے کہ پنجرہ بدل گیا

سب کچھ بدل گیا ہے بجز ایک عذر کے
کیا کیجئے جناب زمانہ بدل گیا

ہم کو شکایتیں نہیں اتنا گلہ ہے بس
وہ چاہ آپ کی وہ بلانا بدل گیا

ابرک ہمیں بدل کے یوں خوش یار لوگ ہیں
جیسے کوئی خراب سا پرزہ بدل گیا

Leave a Comment

محبت میں غلط فہمی اگر الزام تک پہنچے

محبت میں غلط فہمی اگر الزام تک پہنچے
کسے معلوم کس کا نام کس کے نام تک پہنچے

تیری آنکھوں کے ٹھکرائے ہوئے وہ لوگ تھے شاید
جو اِک شرمندگی ہونٹوں پہ لے کر جام تک پہنچے

سبھی رستوں پہ تھے شعلہ فشاں حالات کے سورج
بہت مشکل سے ہم ان گیسوؤں کی شام تک پہنچے

کسی نے بھی نہ اپنی دھڑکنوں میں دی جگہ جن کو
وہ سارے ولولے میرے دلِ نا کام تک پہنچے

سجا کر آئیں جب سونے کا چشمہ اپنی آنکھوں پر
نظر ہم مفلسوں کی تب کہاں اس بام تک پہنچے

قتیلؔ آئینہ بن جاؤ زمانے میں محبت کا
اگر تم چاہتے ہو شاعری اِلہام تک پہنچے

Leave a Comment

ﮐﭽﮭﮧ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﮐﭽﮭﮧ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ
ﮐﭽﮭﮧ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﮔﻠﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﭘﺮﺍﺳﺮﺍﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﮨﮯ ﮐﻮﻥ ﺍﺗﺮﺗﺎ ﮨﮯ ؟ ﻭﮨﺎﮞ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭼﺎﻧﺪ
ﮐﮩﻨﮯ ﮐﻮ ﺗﻮ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺲ ﺩﯾﻮﺍﺭ .. ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻠﮕﺘﮯ ﮨﻮﮰ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﭘﮧ ﻣﺖ ﺟﺎ
ﭘﻠﮑﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﺮﮮ ﺑﮭﯿﮕﺘﮯ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﯾﮧ ﺩﮬﻮﭖ ﮐﯽ ﺳﺎﺯﺵ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻮﺳﻢ ﮐﯽ ﺷﺮﺍﺭﺕ
ﺳﺎﺋﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﻢ ﮨﯿﮟ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺷﺠﺎﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﺑﮯ ﺣﺮﻑ ﻃﻠﺐ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ
ﻭﮦ ﯾﻮﮞ ﮐﮧ ﺳﻮﺍﻟﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﺧﻮﺩ ﺩﺍﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﺗﻢ ﻣﻨﺼﻒ ﻭ ﻋﺎﺩﻝ ﮨﯽ ﺳﮩﯽ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ
ﮐﯿﻮﮞ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﭼﮭﯿﻨﭩﮯ ﺳﺮ ﺩﺳﺘﺎﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﺍﮮ ﮨﺠﺮ ﮐﯽ ﺑﺴﺘﯽ ﺗﻮ ﺳﻼﻣﺖ ﺭﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ
ﺳﻨﺴﺎﻥ ﺗﯿﺮﮮ ﮐﻮﭼﮧ ﻭ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﻣﺤﺴﻦ ﮨﻤﯿﮟ ﺿﺪ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺑﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ
ﮨﻢ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﻏﺎﻟﺐ ﮐﮯ ﻃﺮﻓﺪﺍﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

Leave a Comment

مرے ہم نفس، مرے ہم نوا، مجھے دوست بن کے دغا نہ دے

مرے ہم نفس، مرے ہم نوا، مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
میں ہوں دردِ عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دُعا نہ دے

میں غمِ جہاں سے نڈھال ہوں کہ سراپا حزن و ملال ہوں
جو لکھے ہیں میرے نصیب میں وہ الم کسی کو خُدا نہ دے

نہ یہ زندگی مری زندگی، نہ یہ داستاں مری داستاں
میں خیال و وہم سے دور ہوں، مجھے آج کوئی صدا نہ دے

مرے گھر سے دور ہیں راحتیں، مجھے ڈھونڈتی ہیں مصیبتیں
مجھ خوف یہ کہ مرا پتہ کوئی گردشوں کو بتا نہ دے

مجھے چھوڑ دے مرے حال پر، ترا کیا بھروسہ اے چارہ گر
یہ تری نوازشِ مختصر ، مرا درد اور بڑھا نہ دے

مرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتشِ گُل سے ہے کہیں یہ چمن کو جلا نہ دے

درِ یار پہ بڑی دھوم ہے ، وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ابھی نیند آئی ہے حُسن کو کوئی شور کر کے جگا نہ دے

مرے داغِ دل سے ہے روشنی یہی روشنی مری زندگی
مجھے ڈر ہے اے مرے چارہ گر یہ چراغ تُو ہی بُجھا نہ دے

وہ اُٹھے ہیں لے کے خم و سبو، ارے اے شکیل کہاں ہے تُو
ترا جام لینے کو بزم میں ، کوئی اور ہاتھ بڑھا نہ دے

شکیل بدایونی

Leave a Comment

حاکم تھا جسم ، جس کی رعیت میں کاٹ دی

حاکم تھا جسم ، جس کی رعیت میں کاٹ دی
اک عمر ہم نے اپنی معیت میں کاٹ دی

جس کال کی برس ہا برس سے تھی منتظر
وہ اپنی جلد باز طبیعت میں کاٹ دی

اپنی نہیں چلائیں کبھی خود پہ مرضیاں
بس زندگی خدا کی مشئیت میں کاٹ دی

اس بدگمان شخص کی پہلے پہل سنی
جب بات بڑھ گئی تو اذیت میں کاٹ دی

سوچا کہ میرا کون ہے جس کے لیے لکھوں ؟
تحریر جو لکھی تھی وصیت میں ، کاٹ دی

نیت پہ انحصار تھا اعمال کا سو ، عمر
ہم نے ترے حصول کی نیت میں کاٹ دی

کومل جوئیہ

Leave a Comment

جستجو میں تیری پھرتا ہوں نجانے کب سے؟

جستجو میں تیری پھرتا ہوں نجانے کب سے؟
آبلہ پا ہیں مرے ساتھ زمانے- کب سے

میں کہ قسمت کی لکیریں بھی پڑھا کرتا تھا
کوئی آیا ہی نہیں ہاتھ دکھانے کب سے

نعمتیں ہیں نہ عذابوں کا تسلسل اب تو
مجھ سے رُخ پھیر لیا میرے خدا نے کب سے

جان چھٹرکتے تھے کبھی خود سے غزالاں جن پر
بھول بیٹھے ہیں شکاری وہ نشانے کب سے

وہ تو جنگل سے ہواؤں کو چُرا لاتا تھا
اُس نے سیکھے ہیں دیے گھر میں جلانے کب سے؟

شہر میں پرورشِ رسمِ جنوں کون کرے؟
یوں بھی جنگل میں یاروں کے ٹھکانے کب سے؟

آنکھ رونے کو ترستی ہے تو دل زخموں کو
کوئی آیا ہی نہیں احسان جتانے کب سے

جن کے صدقے میں بسا کرتے تھے اُجڑے ہوئے لوگ
لُٹ گئے ہیں سرِ صحرا وہ گھرانے کب سے

لوگ بے خوف گریباں کو کُھلا رکھتے ہیں
تِیر چھوڑا ہی نہیں دستِ قضا نے کب سے

جانے کب ٹوٹ کے برسے گی ملامت کی گھٹا؟
سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں دِوانے کب سے

جن کو آتا تھا کبھی حشر جگانا محسن
بختِ خفتہ کو نہ آئے وہ جگانے کب سے

محسن نقوی

Leave a Comment
%d bloggers like this: