Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

وہ اپنے حُسن کا دیوانہ بن جائے تو کیا کیجئے

وہ اپنے حُسن کا دیوانہ بن جائے تو کیا کیجئے
وجودِ شمع خود پروانہ بن جائے تو کیا کیجئے

جسے ہو شوق پُرنم شوق سے اپنا بنانے کا
ہمیں اپنا کے وہ بیگانہ بن جائے تو کیا کیجئے

حقیقت میں برائے نام تھا میرا جنوں لیکن
ذرا سی بات کا افسانہ بن جائے تو کیا کیجئے

ہر اک چہرہ نظر آنے لگے جب یار کا چہرہ
ہر اک چہرہ رُخِ جانانہ بن جائے تو کیا کیجئے

مُیسر سُکھ نہ ہو جب باوجودِ کوشش پیہم
دُکھ اپنا ہمنوا روزانہ بن جائے تو کیا کیجئے

پلا کر پیر میخانہ بنا سکتا ہے یہ مانا
مگر جو بِن پئے مستانہ بن جائے تو کیا کیجئے

Leave a Comment

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم

خموشی سے ادا ہو رسمِ دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم

یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم

وفا، اخلاص، قربانی،مرو ّت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم

سنا دیں عصمتِ مریم کا قصّہ؟
پر اب اس باب کو وا کیوں کریں ہم

زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے
بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کری ہم

ہماری ہی تمنّا کیوں کرو تم
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم

کیا تھا عہد جب لحموں میں ہم نے
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم

اُٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں
فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم

جو اک نسل فرومایہ کو پہنچے
وہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم

نہیں دُنیا کو جب پرواہ ہماری
تو پھر دُنیا کی پرواہ کیوں کریں ہم

برہنہ ہیں سرِبازار تو کیا
بھلا اندھوں سے پردا کیوں کریں ہم

ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی
سو خود پر بھی بھروسہ کیوں کریں ہم

پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں
زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم

یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم

جون ایلیا

Leave a Comment

دل سوز سے خالی ہے

دل سوز سے خالی ہے ، نگہ پاک نہيں ہے
پھر اس ميں عجب کيا کہ تو بے باک نہيں ہے
ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک ميں پنہاں
غافل! تو نرا صاحب ادراک نہيں ہے
وہ آنکھ کہ ہے سرم ہ افرنگ سے روشن
پرکار و سخن ساز ہے ، نم ناک نہيں ہے
کيا صوفی و ملا کو خبر ميرے جنوں کی
ان کا سر دامن بھی ابھی چاک نہيں ہے
کب تک رہے محکومی انجم ميں مری خاک
يا ميں نہيں ، يا گردش افلاک نہيں ہے
بجلی ہوں ، نظر کوہ و بياباں پہ ہے مری
ميرے ليے شاياں خس و خاشاک نہيں ہے
عالم ہے فقط مومن جاں باز کی ميراث
مومن نہيں جو صاحب لولاک نہيں ہے

Leave a Comment

ھم لوگ

راہ گذر کا چراغ ھیں ، ھم لوگ
آپ اپنا سراغ ھیں ، ھم لوگ

جل رھے ھیں ، نہ بجھ رھے ھیں
کسی کے سینے کا داغ ھیں ، ھم لوگ؟؟

خود تہی ھے ، مگر پِلاتے ھیں
میکدے کا ایاغ ھیں ، ھم لوگ

دشمنوں کو بھی ، دوست کہتے ھیں
کتنے عالی دماغ ھیں ، ھم لوگ

چشم تحقیر سے نہ دیکھ
دامنوں کا فراغ ھیں ، ھم لوگ

ایک جھونکا نصیب ھے ، ساغر
اُس گلی کا چراغ ھیں ، ھم لوگ

Leave a Comment

غم کے مجرم، خوشی کے مجرم ہیں

غم کے مجرم، خوشی کے مجرم ہیں
لوگ اب زندگی کے مجرم ہیں

اور کوئی گناہ یاد نہیں
سجدۂ بے خودی کے مجرم ہیں

استغاثہ ہے راہ و منزل
راہزن رہبری کے مجرم ہیں

مے کدے میں یہ شور کیسا ہے
بادہ کش بندگی کے مجرم ہیں

دشمنی آپ کی عنایت ہے
ہم فقط دوستی کے مجرم ہیں

ہم فقیروں کی صورتوں پہ نہ جا
خدمتِ آدمی کے مجرم ہیں

کچھ غزالانِ آگہی ساغر
نغمہ و شاعری کے مجرم ہیں

Leave a Comment

قلم کو بابِ تمنا پہ دَھر کے دیکھتے ہیں

قلم کو بابِ تمنا پہ دَھر کے دیکھتے ہیں
خُمِ فراز سے اِک جام بھر کے دیکھتے ہیں

حیا کی برق دَرخشاں ہے شوخ آنکھوں میں
جواہرات کرشمے گہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے دِیویاں اُس کی کنیزِ اَدنیٰ ہیں
خزینے پاؤں تلے خشک و تر کے دیکھتے ہیں

جو اُس کی ظاہری معصومیت پہ واریں دِل
تمام عمر ، ضرر ، بے ضرر کے دیکھتے ہیں

وُہ جس پہ مرتا ہے آخر وُہ چیز کیا ہو گا
ہم اُس کے دِل میں کسی دِن اُتر کے دیکھتے ہیں

وُہ خواب ہے کہ فُسوں ، جن ، پری کہ جانِ جُنوں
سب اُس کے حُسن کو تھوڑا سا ڈَر کے دیکھتے ہیں

جلالِ حُسن پہ حیرت سے دَنگ اِہلِ سُخن
قلم زَمین پہ اِہلِ نظر کے دیکھتے ہیں

ہمیشہ زُعم سے اُس پر غزل شروع کی قیس
ہمیشہ بے بسی پہ ختم کر کے دیکھتے ہیں

Leave a Comment

خود سے ملتی نہیں نجات ہمیں

خود سے ملتی نہیں نجات ہمیں
قید رکھتی ہیں خواہشات ہمیں
میں نے مانگی سکون کی چادر
رنج بولے کہ بیٹھ، کات ہمیں
کچھ تو عادت ھے بے یقینی کی
اور کچھ ہیں تحیرات ہمیں
اس تعلق کا سچ قبول کیا
جوڑتی ہیں ضروریات ہمیں
یونہی جھگڑا طویل ہوتا گیا
سُوجھتی جا رہی تھی بات ہمیں

Leave a Comment

مجھے التفات سے باز رکھ مجھے زندگی کی سزا نہ دے

مجھے التفات سے باز رکھ مجھے زندگی کی سزا نہ دے
یہ نوازشات کا سلسلہ، مِرا درد اور بڑھا نہ دے

کبھی رنگ روپ بدل لیا، کبھی خود کو خود سے چھپا لیا
کہ جہانِ حرص وہَوس کہیں کوئی تازہ زخم لگا نہ دے

یہ ھے میری خواہشِ معتبر مجھے گھر کے کونے میں دفن کر
مجھے گھر کے کونے میں دفن کر مجھے بےگھری کی سزا نہ دے

ذرا ہاتھ رکھ مرے ہاتھ پر، ذرا غور کر مری بات پر
ترے ہجر کی یہ تپش کہیں مری خواہشوں کو مٹا نہ دے

ابھی صبر کر ابھی صبر کر، کسی فیصلے سے گریز کر
تری گھر بسانے کی آرزو یہ مکان تیرا جلا نہ دے

Leave a Comment

اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا

اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا
دل کاعالم ہے__تیرے بعد خلاؤں جیسا

کیا قیامت ہے کہ دنیا اسے سردار کہے
جس کا اندازِ سخن بھی ہو گداؤں جیسا

کاش دنیا میرے احساس کوواپس کردے
خامشی کا وہی انداز_ صداؤں جیسا

پاس رہ کر بھی ہمیشہ وہ بہت دور ملا
اس کا اندازِ تغافل ہے خداؤں جیسا

پھر تیری یاد کے موسم نے جگاۓ محشر
پھر میرے دل میں اٹھا شور ہواؤں جیسا

بارہا خواب میں پا کر مجھے پیاسا محسن
اس کی زلفوں نے کیا رقص گھٹاؤں جیسا

محسن نقوی

Leave a Comment

اس نے سکوت شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا

اس نے سکوت شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا
ہجر کی رات بام پر ماہ تمام رکھ دیا

آمد دوست کی نوید کوئے وفا میں عام تھی
میں نے بھی اک چراغ سا دل سر شام رکھ دیا

شدت تشنگی میں بھی غیرت مے کشی رہی
اس نے جو پھیر لی نظر میں نے بھی جام رکھ دیا

اس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے
میں نے تو اس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا

دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے تو سب حساب جاں بر سر عام رکھ دیا

اب کے بہار نے بھی کیں ایسی شرارتیں کہ بس
کبک دری کی چال میں تیرا خرام رکھ دیا

جو بھی ملا اسی کا دل حلقہ بگوش یار تھا
اس نے تو سارے شہر کو کر کے غلام رکھ دیا

اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا

Leave a Comment
%d bloggers like this: