Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

بے داد و جور و لطف و ترحم سے کیا غرض

بے داد و جور و لطف و ترحم سے کیا غرض
تم کو غرض نہیں، تو ہمیں تم سے کیا غرض

کیوں ہم شبِ فراق میں تارے گنا کریں
ہم کو شمارِ اختر و انجم سے کیا غرض

کوئی ہنسا کرے، تو بلا سے ہنسا کرے
کیوں دل جلائیں، برقِ تبسم سے کیا غرض

لیتے ہیں جاں نثار کوئی منتِ مسیح
جو ہو شہیدِ عشق اسے قم سے کیا غرض

جو خاکسارِ عشق ہیں ملتے ہیں خاک میں
اہل زمیں کو چرخِ چہارم سے کیا غرض

دل طرزِ انجمن ہی سے بیزار ہوگیا
مطلب ہمیں شراب سے کیا، خم سے کیا غرض

کیوں بزمِ عیش چھوڑ کے بزمِ عزا میں آئیں
ان کو ہمارے پھولوں سے، چہلم سے کیا غرض

روزِ ازل سے پاک ہیں رندانِ بے ریا
ان کو وضو سے اور تیمم سے کیا غرض

شیدائیوں کو عزتِ دنیا سے ننگ ہے
دیوانے کو ملامتِ مردم سے کیا غرض

معشوق سے امیدِ کرم؟ داغؔ خیر ہے
اس بندۂ خدا کو ترحم سے کیا غرض

داغؔ دہلوی​

Leave a Comment

جو تیرے ساتھ رہتے ہوئے سوگوار ہو

جو تیرے ساتھ رہتے ہوئے سوگوار ہو
لعنت ہو ایسے شخص پہ اور بے شمار ہو

دن رات بہہ رہی ہے توقف کیے بغیر
جیسے یہ آنکھ، آنکھ نہ ہو آبشار ہو

اب اتنی دیر بھی نہ لگا یہ نہ ہو کہیں
تُو آ چکا ہو اور تیرا انتظار ہو

میں پھول ہوں تو پھر ترے بالوں میں کیوں نہیں
تُو تِیر ہے تو میرے کلیجے کے پار ہو

کب تک کسی سے کوئی محبت سے پیش آئے
اُس کو مرے رویے پہ دکھ ہے تو یار ہو

اک آستیں چڑھانے کی عادت کو چھوڑ کر
حافی تم آدمی تو بہت شاندار ہو

تہذیب حافی

Leave a Comment

عجب اداسی ہے

عجیب دن ہیں مرے اور عجب اداسی ہے
ترے بغیر مرے یار سب اداسی ہے

مجھے نواز کوئی ہجر سے بھرا ہوا عشق
میں وہ فقیر ہوں جس کی طلب اداسی ہے

کبھی کبھی تو الف لام میم کھلتا ہے
کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے رب اداسی ہے

ہماری مستی الستی ہمارا سوگ بہشت
ہمارے ہونے کا شاید سبب اداسی ہے

اک اور لہر بھی ہوتی ہے لہر کے اندر
اسی لیے تو میاں زیر لب اداسی ہے

تری کمی کا بھی اب دن منائیں گے ہم لوگ
اور اس کا نام رکھیں گے غضب اداسی ہے

Leave a Comment

وہ حرفِ راز کہ مجھ کو سِکھا گیا ہے جُنوں

وہ حرفِ راز کہ مجھ کو سِکھا گیا ہے جُنوں
خدا مجھے نفَسِ جبرئیل دے تو کہوں

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبُوں

حیات کیا ہے، خیال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناگُوں

عجب مزا ہے، مجھے لذّتِ خودی دے کر
وہ چاہتے ہیں کہ مَیں اپنے آپ میں نہ رہوں

ضمیرِ پاک و نگاہِ بلند و مستیِ شوق
نہ مال و دولتِ قاروں، نہ فکرِ افلاطوں

سبق مِلا ہے یہ معراجِ مصطفیٰؐ سے مجھے
کہ عالمِ بشَرِیّت کی زد میں ہے گردُوں

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے ’کُنْ فَیَکُوںْ‘

علاج آتشِ رومیؔ کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں

اُسی کے فیض سے میری نگاہ ہے روشن
اُسی کے فیض سے میرے سبُو میں ہے جیحوں

Leave a Comment

نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں

نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں

نہ ملا کر اداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں

آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں

جی جلاتا ہوں اور سوچتا ہوں
رائیگاں یہ ہنر نہ جائے کہیں

آو کچھ دیر رو ہی لیں ناصر
پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں

ناصر کاظمی

Leave a Comment

پہلے پہل لڑیں گے تمسخر اڑائیں گے

پہلے پہل لڑیں گے تمسخر اڑائیں گے
جب عشق دیکھ لیں گے تو سر پر بٹھائیں گے

تو تو پھر اپنی جان ہے تیرا تو ذکر کیا
ہم تیرے دوستوں کے بھی نخرے اٹھائیں گے

غالبؔ نے عشق کو جو دماغی خلل کہا
چھوڑیں یہ رمز آپ نہیں جان پائیں گے

پرکھیں گے ایک ایک کو لے کر تمہارا نام
دشمن ہے کون دوست ہے پہچان جائیں گے

قبلہ کبھی تو تازہ سخن بھی کریں عطا
یہ چار پانچ غزلیں ہی کب تک سنائیں گے

آگے تو آنے دیجئے رستہ تو چھوڑیئے
ہم کون ہیں یہ سامنے آ کر بتائیں گے

یہ اہتمام اور کسی کے لئے نہیں
طعنے تمہارے نام کے ہم پر ہی آئیں گے

علی زریون

Leave a Comment

تَیرے فِراق کے لَمحے شُمار کَرتے ہُوئے

تَیرے فِراق کے لَمحے شُمار کَرتے ہُوئے
بِکھَر چَلے ہیں تَیرا اِنتِظار کَرتے ……ہُوئے

تو مَیں بھی خوش ہُوں کوئی اُس سے جا کے کَہہ دَینا
اَگَر وُہ خوش ہے مُجھے بے قَرار کَرتے ہُوئے

تُمہَیں خَبَر ہی نَہِیں ہے کہ کوئی ٹُوٹ گَیا
مُحَبَّتوں کو بَہُت پائِیدار کَرتے………. ہُوئے

مَیں مُسکُراتا ہُوا آئِینے میں اُبھروں ….گا
وُہ رو پَڑے گی اَچانَک سِنگھار کَرتے ہُوئے

مُجھے خَبَر تھی کہ اَب لَوٹ کَر نہ آؤں گا
سو تُجھ کو یاد کِیا دِل پہ وار کَرتے…….. ہُوئے

وُہ کَہہ رَہی تھی سَمَندَر نَہِیں ہیں آنکھیں ہیں
مَیں اُن میں ڈُوب گَیا اِعتِبار کَرتے………. ہُوئے

بھَنوَر جو مُجھ میں پَڑے ہیں وُہ مَیں ہی جانتا ہُوں
تُمہارے ہِجَر کے دَریا کو پار کَرتے ہُوئے

Leave a Comment

رویا کریں گے آپ بھی پَہروں اِسی طَرَح

رویا کریں گے آپ بھی پَہروں اِسی طَرَح
اَٹکا کَہِیں جَو آپ کا دِل بھی مِری طَرَح

آتا نہیں ہے وہ تَو کِسی ڈَھب سے داؤ میں
بَنتی نہیں ہے مِلنے کی اُس کے کوئی طَرَح

تَشبِیہ کِس سے دُوں کہ طَرَح دار کی مِرے
سَب سے نِرالی وَضع ہے سَب سے نئی طَرَح

مَر چُک کَہِیں کہ تُو غَمِ ہِجراں سے چُھوٹ جائے
کَہتے تَو ہیں بَھلے کی وُ لیکِن بُری طَرَح

نَے تاب ہِجر میں ہے نہ آرام وَصل میں
کَم بَخت دِل کو چَین نہیں ہے کِسی طَرَح

ََلَگتی ہیں گالِیاں بھی تِرے منہ سے کَیا بَھلی
قُربان تیرے پِھر مُجھے کَہہ لے اُسی طَرَح

پامال ہَم نہ ہوتے فَقَط جَورِ چَرخ سے
آئی ہَماری جان پہ آفَت کئی طَرَح

نَے جائے واں بَنے ہے نَے بِن جائے چَین ہے
کَیا کِیجیے ہَمیں تَو ہے مُشکِل سَبھی طَرَح

مَعشُوق اَور بھی ہیں بَتا دے جہان میں
کَرتا ہے کون ظُلم کِسی پَر تِری طَرَح

ہُوں جاں بَہ لَب بُتانِ سِتَم گَر کے ہاتھ سے
!کَیا سَب جہاں میں جِیتے ہیں مومنؔ اِسی طَرَح۔۔۔

مومن خان مومنؔ

Leave a Comment

دِل کــو مِـــٹَا کِے دَاغِ تَمَـــــنّا دِیَا مُجِھے

دِل کــو مِـــٹَا کِے دَاغِ تَمَـــــنّا دِیَا مُجِھے
اے عِشق! تِیرِی خَیر ہو، یِہ کَیا دِیَا مُجِھے

محشَر مِیں بَات بِھی نَہ زُبَاں سِےنِکل سَکِی
کَیا جُھک کِےاُس نِگَاہ نِےسَمجَھا دِیَا مُجِھے

مَــــیں ، اُور آرزُوئِے وِصَـــالِ پَـــرِی رُخــاں
اِس عِــشقِ سَادَہ لَوح نِے ، بہــکَا دِیَا مُجھے

ہَـر بَار، یَاس ہِجَـر مِیں دِل کِی ہُوئِی شَرِیک
ہَــر مَــرتَبہ ، اُمِیــد نِے دُھـــوکَہ دِیَا مُجِھے

اَللَہ رِے تِـــیغِ عِـــشق کِی بَرہَـم مِـــزَاجِیَاں
مِیـرے ہِی خُونِ شُوق مِـــیں نِہلَا دِیَا مُجِھے

خُوش ہُوں،کِہ حُسنِ یَارنِے خُوداَپنِےہَاتھ سِے
اِک دِل فَـرِیب دَاغِ تَمَــنّا دِیـاَ مُجِھے

دُنیــا سِے کُــھو چُکا تَھا مِــرَا جُـوشِ اِنتَظَار
آوَازِ پَائِے یَار نِے ، چُـــونکَا دِیا مُجھے

دَعــوٰی کِیَا تَھا ضَـبطِ مُحَبّت کَا ، اِے “جِگَرؔ!
ظَالِم نِے ، بَات بَات پِہ تَڑپَا دِیَا مُجِھے

جگر مراد آبادی

Leave a Comment

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

کسی کام میں جو نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں

نہ دوائے درد جگر ہوں میں نہ کسی کی میٹھی نظر ہوں میں

نہ ادھر ہوں میں نہ ادھر ہوں میں نہ شکیب ہوں نہ قرار ہوں

مرا وقت مجھ سے بچھڑ گیا مرا رنگ روپ بگڑ گیا

جو خزاں سے باغ اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں

پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں کوئی چار پھول چڑھائے کیوں

کوئی آ کے شمع جلائے کیوں میں وہ بیکسی کا مزار ہوں

نہ میں لاگ ہوں نہ لگاؤ ہوں نہ سہاگ ہوں نہ سبھاؤ ہوں

جو بگڑ گیا وہ بناؤ ہوں جو نہیں رہا وہ سنگار ہوں

میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فزا مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا

میں بڑے بروگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھی کی پکار ہوں

نہ میں ظفرؔ ان کا حبیب ہوں نہ میں ظفرؔ ان کا رقیب ہوں

جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں
بہادر شاہ ظفر

Leave a Comment
%d bloggers like this: