Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

اخلاص کی ثروت دے کردار کی رفعت دے

اخلاص کی ثروت دے کردار کی رفعت دے
گستاخ نگاہوں کو کچھ اشکِ ندامت دے

سرشار مجھے کر دے تو اپنی محبت سے
کچھ شوقِ اطاعت دے کچھ ذوقِ عبادت دے

شب وروز مرےگزریں تیری ثنا میں پیہم
کچھ ایسی عقیدت دے کچھ ایسی ارادت دے

پیمانۂ دل میرا لبریز ہو ایماں سے
کچھ ایسی بصارت دے کچھ ایسی حرارت دے

کچھ اشک ندامت کے پلکوں پہ سجا لوں میں
اے میری اجل مجھ کو بس اتنی سی مہلت دے

یہ میری طبیعت کیوں کج راہی پہ مائل ہے
صد شکرکروں تیرا گر مجھ کو ہدایت دے

چھٹکارا ملے دل کو لذّت سے گناہوں کی
کچھ ایسی طہارت دے کچھ ایسی طراوت دے

حرمت پہ ترے دِیں کی میں خود کو فنا کرلوں
کچھ ایسی جسارت دے کچھ ایسی شجاعت دے

سب تیری نوازش ہے ،ناچیز نہیں قابل
اب اور وثاقت دے، اب اور متانت دے

تو مجھ کو بچا لینارسوائی سے محشر کی
یہ میری گزارش ہے بس ایک ضمانت دے

ہے تیری رضا مجھ کو منظور میرے مولا
بس اپنی ہی چاہت دے ،کچھ اور نہ حاجت دے

Leave a Comment

خوشی ہوتی تو ہے لیکن بہت ساری نہیں ہوتی

خوشی ہوتی تو ہے لیکن بہت ساری نہیں ہوتی
ترے ملنے سے اب وہ کیفیت طاری نہیں ہوتی

یہ اہلِ دل کی محفل ہے یہاں بیٹھو تسلی سے
کسی سے بھی یہاں کوئی ریاکاری نہیں ہوتی

مجھے جرمِ طلب پر مفلسی مجبور کرتی ہے
مگر مجھ سے ہنر کے ساتھ غداری نہیں ہوتی

یہ لازم ہے غریبوں کے حقوق ان کو دیئے جائیں
فقط خیرات سے تو دور ناداری نہیں ہوتی

مکمل امتحانِ دوستی اِک بار ہی لے لو
کہ ہم سے نِت نئے پرچے کی تیاری نہیں ہوتی

تصنع ڈھل نہیں سکتی کبھی شعروں کے سانچے میں
سخنور کی کوئی بھی بات بازاری نہیں ہوتی

بہت بددل ہیں میری شاعری سے لاڈلے میرے
کہ غزلوں سے کھلونوں کی خریداری نہیں ہوتی

دیا ہے اس کو اہلِ شوق نے درجہ عبادت کا
وہ یاری نازؔ جس میں کوئی عیاری نہیں ہوتی

Leave a Comment

تجھے اظہار محبت سے اگر نفرت ہے

تجھے اظہار محبت سے اگر نفرت ہے
تو نے ہونٹوں کو لرزنے سے تو روکا ہوتا

بے نیازی سے مگر کانپتی آواز کے ساتھ
تو نے گھبرا کے مرا نام نہ پوچھا ہوتا

تیرے بس میں تھی اگر مشعل جذبات کی لو
تیرے رخسار میں گلزار نہ بھڑکا ہوتا

یوں تو مجھ سے ہوئیں صرف آب و ہوا کی باتیں
اپنے ٹوٹے ہوئے فقروں کو تو پرکھا ہوتا

یوں ہی بے وجہ ٹھٹکنے کی ضرورت کیا تھی
دم رخصت میں اگر یاد نہ آیا ہوتا

تیرا غماز بنا خود ترا انداز خرام
دل نہ سنبھلا تھا تو قدموں کو سنبھالا ہوتا

اپنے بدلے مری تصویر نظر آ جاتی
تو نے اس وقت اگر آئنہ دیکھا ہوتا

حوصلہ تجھ کو نہ تھا مجھ سے جدا ہونے کا
ورنہ کاجل تری آنکھوں میں نہ پھیلا ہوتا

احمد ندیم قاسمی

Leave a Comment

دم بہ دم گردشِ دوراں کا گُھمایا ہُوا شخص

دم بہ دم گردشِ دوراں کا گُھمایا ہُوا شخص
ایک دِن حشر اُٹھاتا ہے گرایا ہوا شخص

میں تو خود پر بھی کفایت سے اُسے خرچ کروں
وہ ہے مہنگائی میں مُشکل سے کمایا ہوا شخص

یاد آتا ہے تو آتا ہی چلا جاتا ہے
کارِ بیکارِ زمانہ میں بُھلایا ہوا شخص

دشتِ بے آب میں آواز نہ الفاظ کہِیں
ہر طرف دھوپ تھی پھر پیڑ کا سایہ ہوا شخص

جب ضرورت تھی،اُسی وقت مُجھے کیوں نہ ملا
بس اِسی ضد میں گنوا بیٹھوں گا پایا ہُوا شخص

کیا عجب خوانِ مُقدّر ہی اُٹھا کر پھینکے
ڈانٹ کرخوانِ مُقدّر سے اُٹھایا ہُوا شخص

اپنی شورِیدہ مِزاجی کا کروں کیا “نیّر”
روٹھ کر جا بھی چُکا مان کے آیا ہُوا شخص

Leave a Comment

کتنے بے درد ہیں صَرصَر کو صبا کہتے ہیں

کتنے بے درد ہیں صَرصَر کو صبا کہتے ہیں
کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیا کہتے ہیں

جبر کو میرے گناہوں کی سزا کہتے ہیں
میری مجبوری کو تسلیم و رضا کہتے ہیں

غم نہیں گر لبِ اظہار پر پابندی ہے
خامشی کو بھی تو اِک طرزِ نوا کہتے ہیں

کُشتگانِ ستم و جور کو بھی دیکھ تو لیں
اہلِ دانش جو جفاؤں کو وفا کہتے ہیں

کل بھی حق بات جو کہنی تھی سرِ دار کہی
آج بھی پیشِ بتاں نامِ خدا کہتے ہیں

یوں تو محفل سے تری اُٹھ گئے سب دل والے
ایک دیوانہ تھا وہ بھی نہ رہا کہتے ہیں

یہ مسیحائی بھی کیا خوب مسیحائی ہے
چارہ گر موت کو تکمیلِ شِفا کہتے ہیں

بزمِ زنداں میں ہوا شورِ سلاسل برپا
دہر والے اسے پائل کی صدا کہتے ہیں

آندھیاں میرے نشیمن کو اڑانے اٹھیں
میرے گھر آئے گا طوفانِ بلا کہتے ہیں

اُن کے ہاتھوں پہ اگر خون کے چھینٹے دیکھیں
مصلحت کیش اسے رنگِ حنا کہتے ہیں

میری فریاد کو اِس عہد ہوس میں ناصر
ایک مجذوب کی بے وقت صدا کہتے ہیں

Leave a Comment

یوں آرہا ہے آج لبوں پر کسی کا نام

یوں آرہا ہے آج لبوں پر کسی کا نام
ہم پڑھ رہے ہوں جیسے چُھپا کر کسی کا نام

سُنسان یُوں تو کب سے ہے کُہسارِ باز دِید
کانوں میں گوُنجتا ہے برابر کسی کا نام

دی ہم نے اپنی جان تو قاتِل بنا کوئی
مشہُور اپنے دَم سے ہے گھر گھر کسی کا نام

ڈرتے ہیں اُن میں بھی نہ ہو اپنا رقیب کوئی
لیتے ہیں دوستوں سے چُھپا کر کسی کا نام

اپنی زبان تو بند ہے، تم خود ہی سوچ لو
پڑتا نہیں ہے یونہی سِتمگر کسی کا نام

ماتم سَرا بھی ہوتے ہیں کیا خود غَرَض قتیل
اپنے غموں پہ روتے ہیں لے کر کسی کا نام

قتیل شفائی

Leave a Comment

انساں نہیں رہتا ہے تو ہوتا نہیں غم بھی​

انساں نہیں رہتا ہے تو ہوتا نہیں غم بھی​
سو جائیں گے اک روز زمیں اوڑھ کے ہم بھی​

بے جا نہیں کہہ دوں جو اسے لطف و کرم بھی​
قسمت میں مری اتنے کہاں تھے ترے غم بھی​

جس لغزش آدم سے خلافت ہے مزین​
اس جوش محبت کے خطاوار ہیں ہم بھی​

اہلوں کے مقامات پہ نا اہل ہیں فائز​
گھٹتا ہے اب اس شہر تمدن میں تو دم بھی​

آ جائے میسر جو کوئی ڈھب کا خریدار​
ہم لوگ تو بک جاتے ہیں بے دام و درم بھی​

یہ بات غلط شہر میں تم سے ہیں ہزاروں
اے جان طرب آج تو نایاب ہیں ہم بھی​

پہلے تو اعزا مرے رونے پہ ہنسے ہیں
دنیا پہ گزرتا ہے گراں اب ترا غم بھی​

انسان کی کیا بات ہے پتھر کی سلوں پر​
محفوظ ابھی تک ہیں کئی نقش قدم بھی​

لازم ہے کہ شایان تجلی ہوں نگاہیں​
ہونے کو تو یوں طالب دیدار ہیں ہم بھی​

اس شہر میں چلتی نہیں اخلاق کی راہیں​
اس دور میں ناپید ہیں ارباب ہمم بھی​

ڈر ہے کہیں اس کو بھی نہ اپنا لے زمانہ​
محدود ابھی تو ہے ہمیں تک ترا غم بھی​

حیرت ہے کہ رکتے ہیں جہاں زیست کے رہرو​
کہتے ہیں اسی قریہ ہستی کو عدم بھی​

شام آئی سمندر میں چلا ڈوبنے سورج​
اک روز ترے دل سے اتر جائیں گے ہم بھی​

دیوانے اگر جھانجھ میں کہہ دیں گے کوئی بات​
رہ جائیں گے منہ دیکھ کے قرطاس و قلم بھی​

تو نے کبھی اس راز کو سوچا ہے نہ سمجھا​
ہیں تیرے تعاقب میں ترے نقش قدم بھی​

ہر چند کہ شکوہ ہے غم ہجر کا لیکن​
جینے میں معاون ہے ترے ہجر کا غم بھی​

تاریک شبوں میں بھی کئی غار تھے روشن​
اے کاش وہ خوش کام سماں دیکھتے ہم بھی​

میں مسند و اورنگ سے غافل تو نہیں ہوں​
ہے میری نظر میں ترا معیار کرم بھی​

لبریز کیا ہے تو سنبھالو ہمیں ورنہ​
شیشے کی طرح گر کے بکھر جائیں گے ہم بھی​

تشخیص مرض چارہ گرو سوچ سمجھ کر​
ہوتا ہے مجھے درد کی تخفیف کا غم بھی​

تم لوگ زباں دے کے بھی پھر جاتے ہو اکثر​
ہم لوگ نبھا دیتے ہیں بے قول و قسم بھی​

کل رات سے سینہ میں وہی پہلی خلش ہے​
اب ہاتھ سے جاتا نظر آتا ہے بھرم بھی​

جو سینہ سپر عرصہ ہستی میں ہیں دانش
دشوار نہیں ان کے لیے راہ عدم بھی​

احسان دانش

Leave a Comment

اس سے پہلے کہ یہ دنیا مجھے رسوا کر دے

اس سے پہلے کہ یہ دنیا مجھے رسوا کر دے
تو مرے جسم مری روح کو اچھا کر دے

کس قدر ٹُوٹ رہی ہے مری وحدت مجھ میں
اے مرے وحدتوں والے مجھے یکجا کر دے

یہ جو حالت ہے مری میں نے بنائی ہے مگر
جیسا تو چاہتا ہے اب مجھے ویسا کر دے

میرے ہر فیصلے میں تیری رضا شامل ہو
جو ترا حکم ہو وہ میرا ارادہ کر دے

مجھ کو ہر سمت اندھیرا ہی نظر آتا ہے
کور بینی کو مری دیدۂ بینا کر دے

مجھ کو وہ علم سکھا جس سے اُجالے پھیلیں
مجھ کو وہ اسم پڑھا جو مجھے زندہ کر دے

میرے لوگوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکال
میرے بچوں کو مہ و مہر و ستارا کر دے

ضائع ہونے سے بچا لے مرے معبود مجھے
یہ نہ ہو وقت مجھے کھیل تماشا کر دے

میں مسافر ہوں، سو رستے مجھے راس آتے ہیں
میری منزل کو مرے واسطے رستہ کر دے

میری آواز تری حمد سے لبریز رہے
بزمِ کونین میں جاری مرا نغمہ کر دے

(سلیم کوثر)

Leave a Comment

سفر منزل شب یاد نہیں

سفر منزل شب یاد نہیں
لوگ رخصت ہوئے کب یاد نہیں

اولیں قرب کی سرشاری میں
کتنے ارماں تھے جو اب یاد نہیں

دل میں ہر وقت چبھن رہتی تھی
تھی مجھے کس کی طلب یاد نہیں

وہ ستارا تھی کہ شبنم تھی کہ پھول
ایک صورت تھی عجب یاد نہیں

کیسی ویراں ہے گزر گاہ خیال
جب سے وہ عارض و لب یاد نہیں

بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار
یاد آئیں بھی تو سب یاد نہیں

ایسا الجھا ہوں غم دنیا میں
ایک بھی خواب طرب یاد نہیں

رشتۂ جاں تھا کبھی جس کا خیال
اس کی صورت بھی تو اب یاد نہیں

یہ حقیقت ہے کہ احباب کو ہم
یاد ہی کب تھے جو اب یاد نہیں

یاد ہے سیر چراغاں ناصرؔ
دل کے بجھنے کا سبب یاد نہیں

Leave a Comment

اب خوشی ہے نہ کوئی درد رلانے والا

اب خوشی ہے نہ کوئی درد رلانے والا
ہم نے اپنا لیا ہر رنگ زمانے والا

ایک بے چہرہ سی امید ہے چہرہ چہرہ
جس طرف دیکھیے آنے کو ہے آنے والا

اس کو رخصت تو کیا تھا، مجھے معلوم نہ تھا
سارا گھر لے گیا، گھر چھوڑ کے جانے والا

دور کے چاند کو ڈھونڈو نہ کسی آنچل میں
یہ اجالا نہیں آنگن میں سمانے والا

اک مسافر کے سفر جیسی ہے سب کی دنیا
کوئی جلدی میں، کوئی دیر سے جانے والا

ندا فاضلی

Leave a Comment
%d bloggers like this: