Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے

تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے
جنوں میں جتنی بھی گزری بکار گزری ہے
اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے
ہوئی ہے حضرت ناصح سے گفتگو جس شب
وہ شب ضرور سر کوئے یار گزری ہے
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے
نہ گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
چمن پہ غارت گلچیں سے جانے کیا گزری
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے

فیض احمد فیض

Leave a Comment

یہ غم کیا دل کی عادت ہے؟ نہیں تو

یہ غم کیا دل کی عادت ہے؟ نہیں تو
کسی سے کچھ شکایت ہے؟ نہیں تو

کسی کے بن ،کسی کی یاد کے بن
جیئے جانے کی ہمت ہے؟ نہیں تو

ہے وہ اک خوابِ بے تعبیر اس کو
بھلا دینے کی نیت ہے؟ نہیں تو

کسی صورت بھی دل لگتا نہیں ؟ ہاں
تو کچھ دن سے یہ حالت ہے؟ نہیں تو

ترے اس حال پر ہے سب کو حیرت
تجھے بھی اس پہ حیرت ہے؟ نہیں تو

وہ درویشی جو تج کر آ گیا تو
یہ دولت اس کی قیمت ہے؟ نہیں تو

ہم آہنگی نہیں دنیا سے تیری
تجھے اس پر ندامت ہے؟ نہیں تو

ہوا جو کچھ یہی مقسوم تھا کیا
یہی ساری حکایت ہے ؟ نہیں تو

اذیت ناک امیدوں سے تجھ کو
اماں پانے کی حسرت ہے ؟ نہیں تو

تو رہتا ہے خیال و خواب میں گم
تو اس کی وجہ فرصت ہے ؟ نہیں تو

وہاں والوں سے ہے اتنی محبت
یہاں والوں سے نفرت ہے؟ نہیں تو

سبب جو اس جدائی کا بنا ہے
وہ مجھ سے خوبصورت ہے؟ نہیں تو

جون ایلیا

Leave a Comment

کیسا دل اور اس کے کیا غم جی

کیسا دل اور اس کے کیا غم جی
یونہی باتیں بناتے ہیں ہم جی

کیا بھلا آستین اور دامن
کب سے پلکیں بھی اب نہیں نم جی

اُس سے اب کوئی بات کیا کرنا
خود سے بھی بات کیجے کم کم جی

دل جو دل کیا تھا ایک محفل تھا
اب ہے درہم جی اور برہم جی

بات بے طَور ہو گئی شاید
زخم بھی اب نہیں ہیں مرہم جی

ہار دنیا سے مان لیں شاید
دل ہمارے میں اب نہیں دم جی

آپ سے دل کی بات کیسے کہوں
آپ ہی تو ہیں دل کے محرم جی

ہے یہ حسرت کہ ذبح ہو جاؤں
ہے شکن اس شکم کی ظالم جی

کیسے آخر نہ رنگ کھیلیں ہم
دل لہو ہو رہا ہے جانم جی

ہے خرابہ، حسینیہ اپنا
روز مجلس ہے اور ماتم جی

وقت دم بھر کا کھیل ہے اس میں
بیش از بیش ہے کم از کم جی

ہے ازل سے ابد تلک کا حساب
اور بس ایک پل ہے پیہم جی

بے شکن ہو گئی ہیں وہ زلفیں
اس گلی میں نہیں رہے خم جی

دشتِ دل کا غزال ہی نہ رہا
اب بھلا کس سے کیجیے رَم جی

جون ایلیا

Leave a Comment

اندر کا زہر چوم لیا دھل کے آ گئے

اندر کا زہر چوم لیا دھل کے آ گئے
کتنے شریف لوگ تھے سب کھل کے آ گئے

سورج سے جنگ جیتنے نکلے تھے بے وقوف
سارے سپاہی موم کے تھے گھل کے آ گئے

مسجد میں دور دور کوئی دوسرا نہ تھا
ہم آج اپنے آپ سے مل جل کے آ گئے

نیندوں سے جنگ ہوتی رہے گی تمام عمر
آنکھوں میں بند خواب اگر کھل کے آ گئے

سورج نے اپنی شکل بھی دیکھی تھی پہلی بار
آئینے کو مزے بھی تقابل کے آ گئے

انجانے سائے پھرنے لگے ہیں ادھر ادھر
موسم ہمارے شہر میں کابل کے آ گئے

راحت اندوری

Leave a Comment

‏اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام

‏اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام
نہ پوچھ کیسے گزرتی ہے تیرے ہجر کی شام

یہ برگ برگ اداسی بکھر رہی ہے مری
کہ شاخ شاخ اترتی ہے تیرے ہجر کی شام

اجاڑ گھر میں کوئی چاند کب اترتا ہے
سوال مجھ سے یہ کرتی ہے تیرے ہجر کی شام

‏مرے سفر میں اک ایسا بھی موڑ آتا ہے
جب اپنے آپ سے ڈرتی ہے تیرے ہجر کی شام

بہت عزیز ہیں دل کو یہ زخم زخم رتیں
انہی رتوں میں نکھرتی ہے تیرے ہجر کی شام

یہ میرا دل یہ سراسر نگارخانۂ غم
سدا اسی میں اترتی ہے تیرے ہجر کی شام

‏جہاں جہاں بھی ملیں تیری قربتوں کے نشاں
وہاں وہاں سے ابھرتی ہے تیرے ہجر کی شام

یہ حادثہ تجھے شاید اداس کر دے گا
کہ میرے ساتھ ہی مرتی ہے تیرے ہجر کی شام

محسن نقوی

Leave a Comment

مُحبت میں ہماری اشک افشانی نہیں جاتی

مُحبت میں ہماری اشک افشانی نہیں جاتی
بھری برسات ہے دریا کی طغیانی نہیں جاتی

مصیبت ٹل نہیں سکتی پریشانی نہیں جاتی
کسی کی بھی نصیحت عشق میں مانی نہیں جاتی

جو کل تک دَیر تھا ہم نے اسے کعبہ بنا ڈالا
مگر اس پر بھی اپنی کفر سامانی نہیں جاتی

مریضِ ہجر کو اب آپ پہچانیں تو پہچانیں
فرشتے سے اجل کے شکل پہچانی نہیں جاتی

تمہارا آستاں ہے اب ہماری آخری منزل
کسی بھی در کی ہم سے خاک اب چھانی نہیں جاتی

قیامت ہے تمہارا بن سنور کے سامنے آنا
مرا کیا ذکر ، آئینے کی حیرانی نہیں جاتی

وہی خودداریاں ہیں ، تمکنت ہے ، بے نیازی ہے
فقیری میں بھی اپنی شانِ سلطانی نہیں جاتی

یہ ممکن ہے ترے کوچے میں رہ کر جان سے جائیں
مگر تا مرگ تیرے در کی دربانی نہیں جاتی

تری رنجش ہو ، تیری بے رُخی ہو ، بد گمانی ہو
بڑی مشکل سے جاتی ہے بہ آسانی نہیں جاتی

تماری ناشناسائی کا شکوہ کیا کریں تم سے
ہمیں سے جب ہماری شکل پہچانی نہیں جاتی

جنونِ عشق سے جو بستیاں آباد ہوتی ہیں
بہاریں لاکھ آئیں اُنکی ویرانی نہیں جاتی

محبت تو نصیؔر ایسا طلاطم خیز دریا ہے
سفینے غرق ہو جاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی

Leave a Comment

کچھ سرابوں پہ وار دی ہم نے

کچھ سرابوں پہ وار دی ہم نے
زندگی یوں گزار دی ہم نے

آئینہ دیکھ کر یوں گھبرائے
اپنی صورت اتار دی ہم نے

راستے نے تو منزلیں دی ہمیں
اس کو گرد و غبار دی ہم نے

سالِ فردا سے گفتگو جب کی
بس نویدِ بہار دی ہم نے

مانتا ہی نہیں جہاں ہم کو
گو دلیلیں ہزار دی ہم نے

اک نئی روح پھونک دی رب نے
کبھی ہمت جو ہار دی ہم نے

تہہ میں رکھی امید ہی ابرک
جب غزل سوگوار دی ہم نے

Leave a Comment

راز کھولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

راز کھولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں
میں سچ جو بولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

اچھے بھلے شریفوں کے ظاہر کو چھوڑ کر
اندر کو پھولتا ہُوں….. بڑا بدتمیز ہُوں

حرکت تو دیکھو میری کہ عہدِ یزید میں
انصاف تولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

اخلاقیات کا میں جنازہ نکال کر
لہجے ٹٹولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

کس کی مجال ہے کہ کہے مُجھ کو بدتمیز
میں خُود ہی بولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

کر کے غمِ حیات کی تلخی کا میں نشہ
دن رات ڈولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

ہر ایک شعر میں حق سچ کی شکل میں
میں زہر گھولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

Leave a Comment

کیا حال سنائیں دُنیا کا

کیا حال سنائیں دُنیا کا
کیا بات بتائیں لوگوں کی
دنیا کے ہزاروں موسم ہیں
لاکھوں ہیں ادائیں لوگوں کی

کچھ لوگ کہانی ہوتے ہیں
دنیا کو سنانے کے قابل
کچھ لوگ نشانی ہوتے ہیں
بس دل میں چھپانے کے قابل

کچھ لوگ گزرتے لمحے ہیں
اک بار گئے تو آتے نہیں
ہم لاکھ بلانا بھی چاہیں،
پرچھائیں بھی انکی پاتے نہیں

کچھ لوگ خیالوں کے اندر
جذبوں کی روانی ہوتے ہیں
کچھ لوگ کٹھن لمحوں کی طرح
پلکوں پہ گرانی ہوتے ہیں

کچھ لوگ سمندر گہرے ہیں
کچھ لوگ کنارا ہوتے ہیں
کچھ ڈوبنے والی جانوں کو
تنکوں کا سہارا ہوتے ہیں

کچھ لوگ چٹانوں کا سینہ
کچھ ریت گھروندہ چھوٹا سا
کچھ لوگ مثال ابر رواں
کچھ اونچے درختوں کا سایہ

کچھ لوگ چراغوں کی صورت
راہوں میں اجالا کرتے ہیں
کچھ لوگ اندھیروں کی کالک
چہرے پر اچھالا کرتے ہیں

کچھ لوگ سفر میں ملتے ہیں
دو گام چلے اور رستے الگ
کچھ لوگ نبھاتے ہیں ایسا
ہوتے ہی نہیں دھڑکن سے الگ

کیا حال سنائیں اپنا تمہیں
کیا بات بتائیں جیون کی
اک آنکھ ہماری ہستی ہے
اک آنکھ میں رت ہے ساون کی

ہم کس کی کہانی کا حصہ
ہم کس کی دعامیں شامل ہیں؟

Leave a Comment

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا
سکُوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہوگا

گزر گیا اب وہ دَور ساقی کہ چھُپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے‌خانہ ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا

کبھی جو آوارۂ جُنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خارزار ہو گا

سُنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا، پھر اُستوار ہو گا

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سُنا ہے یہ قُدسیوں سے مَیں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا

کِیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیرِ میخانہ سُن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے، خوار ہو گا

دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا

تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا

سفینۂ برگِ گُل بنا لے گا قافلہ مُورِ ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہو گا

چمن میں لالہ دِکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دِکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہو گا

جو ایک تھا اے نگاہ تُو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا

کہا جو قُمری سے مَیں نے اک دن، یہاں کے آزاد پا بہ گِل ہیں
تو غُنچے کہنے لگے، ہمارے چمن کا یہ رازدار ہو گا

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھِرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

یہ رسمِ بزمِ فنا ہے اے دل! گناہ ہے جنبشِ نظر بھی
رہے گی کیا آبرُو ہماری جو تُو یہاں بے قرار ہو گا

میں ظُلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شررفشاں ہوگی آہ میری، نفَس مرا شعلہ بار ہو گا

نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدّعا تیری زندگی کا
تو اک نفَس میں جہاں سے مِٹنا تجھے مثالِ شرار ہو گا

نہ پُوچھ اقبالؔ کا ٹھکانا، ابھی وہی کیفیت ہے اُس کی
کہیں سرِ رہ گزار بیٹھا ستم کشِ انتظار ہو گا

Leave a Comment
%d bloggers like this: