اُجڑے ہوۓ ہڑپہ کے آثار کی طرح
زندہ ہیں لوگ وقت کی رفتار کی طرح
کیا رہنا ایسے شہر میں مجبوریوں کے ساتھ
بِکتے ہیں لوگ شام کے اخبار کی طرح
بچوں کا رزق موت کے جھولے میں رکھ دیا
سرکس میں ُکودتے ہوۓ فنکار کی طرح
قاتل براجمان ہوئے منصف کے ساۓ میں
مقتول پھر رہا ھے عزادار کی طرح
وعدے ضرورتوں کی نظر کر دئیے گئے
رشتے ہیں سارے ریت کی دیوار کی طرح
حسن میرے وجود کو سنسار کرتے وقت
شامل تھا سارا شہر اِک تہوار کی طرح
محسن نقوی
اُجڑے ہوۓ ہڑپہ کے آثار کی طرح
Published inGazals
Be First to Comment