بہت دنوں سے نہیں اپنے درمیان وہ شخص
اُداس کرکے ہمیں چل دیا کہاں وہ شخص
وہ جس کے نقشِ قدم سے چراغ جلتے تھے
جلے چراغ تو خود بن گیا دھواں وہ شخص
قریب تھا تو کہا ہم نے سنگدل بھی اُسے
ہوا جو دور تو لگتا ہے جانِ جاں وہ شخص
اُس ایک شخص میں تھیں دلربائیاں کیا کیا
ہزار لوگ ملیں گے مگر کہاں وہ شخص
وہ اس کا حسنِ دلآرا کہ چپ گناہ لگے
جو بے زباں تھے انھیں دے گیا زباں وہ شخص
یہ اس لیے کہ چمن کی فضا اُداس نہ ہو
رہا ہے قیدِ قفس میں بھی نغمہ خواں وہ شخص
چھپا لیا جسے پت جھڑ کے زرد پتوں نے
ابھی تلک ہے بہاروں پہ حکمراں وہ شخص
ہمیں تو پیاس کے صحرا میں گنگناتے ہوئے
دکھائی دیتا ہے اِک بحرِ بیکراں وہ شخص
قتیل ؔ کیسے بھلائیں ہم اہلِ درد اُسے
دلوں میں چھوڑ گیا اپنی داستاں وہ شخص
قتیل شفائی
Collection Of Your Favorite Poets
Be First to Comment