تمام شہر کو جام و سبو کا مسئلہ ہے
میں برگ خشک ہوں مجھ کو نمو کا مسئلہ ہے
ادھڑتی خواہشوں کو سی لیا ہے لیکن اب
پرانے زخم سے رستے لہو کا مسئلہ ہے
بہت سے بد نظر آنکھیں نہیں ہٹاتے ہیں
مرا نہیں یہ ہر اک خوبرو کا مسئلہ ہے
تمہاری بزم میں ہر رنگ کے مسائل ہیں
کہیں پہ چپ ، تو کہیں گفتگو کا مسئلہ ہے
ہمیں تو اور بھی کارِ جہاں میسر ہیں
ہر ایک شخص سے نفرت عدو کا مسئلہ ہے
یہ کھیل دیکھنا ناکام ہونے والا ہے
تماشہ گاہ میں جو ہاؤ ہو کا مسئلہ ہے
ذرا سا نیند کی چادر میں چھید دیکھا ہے
سو اہلِ خواب کو تب سے رفو کا مسئلہ ہے
کومل جوئیہ
تمام شہر کو جام و سبو کا مسئلہ ہے
Published inGazals
Be First to Comment