خلش, گھٹن ہے یہ تشنگی ہے
ہمیں تھا دھوکہ یہ زندگی ہے
پلک جھپکتے خوشی ندارد
تو غم نہ کوئی بھی عارضی ہے
ہیں سب رویے بجھے بجھے سے
نہ دوست اب ہے نہ دشمنی ہے
نہ کوئی سنتا نہ کہہ سکے ہم
ہے شور اتنا کہ خامشی ہے
جلایا امید نے دیا جب
تو سب سے پہلے یہ خود جلی ہے
تلاش میں تھا میں منزلوں کی
سفر سفر میں گزر گئی ہے
لکھا گیا تھا حیات جس کو
یہ رفتہ رفتہ سی خود کشی ہے
کبھی محبت تھی حرف آخر
تو اب تعلق یہ سرسری ہے
میں جب بھی نکلا تری گلی سے
تو سامنے پھر تری گلی ہے
یہ سب مری خوش گمانیاں ہیں
یہ سب محبت کی سادگی ہے
نہ جانے کب سے یوں جی رہا ہوں
کہ سانس جیسے یہ آخری ہے
میں جب سے سمجھا ہوں تجھ کو ابرک
یہ نیند تب سے اڑی اڑی ہے
اتباف ابرک
Be First to Comment