اس اک ڈر سے خواب دیکھتا نہیں
میں جو بھی دیکھتا ہوں بھولتا نہیں
کسی منڈیر پر کوئی دیا جلا
پھر اس کے بعد کیا ہوا پتا نہیں
ابھی سے ہاتھ کانپنے لگے میرے
ابھی تو میں نے وہ بدن چھوا نہیں
میں آرہا تھا راستے میں پھول تھے
میں جا رہا ہوں کوئی روکتا نہیں
تیری طرف چلے تو عمر کٹ گئی
یہ اور بات راستہ کٹا نہیں
میں راہ سے بھٹک گیا تو کیا ہوا
چراغ میرے ہاتھ میں تو تھا نہیں
میں ان دنوں ہوں خود سے اتنا بےخبر
میں مر چکا ہوں اور مجھے پتا نہیں
اس اژدھے کی آنکھ پوچھتی رہی
کسی کو خوف آرہا ہے یا نہیں
یہ عشق بھی عجیب کہ اک شخص سے
مجھے لگا کہ ہوگیا ہوا نہیں
خدا کرے وہ پیڑ خیریت سے ہو
کئی دنوں سے اس کا رابطہ نہیں۔
تہذیب حافی
Be First to Comment