یوں ہی رکّھے گا کیا نڈھال مجھے
اے جنوں کر دے باکمال مجھے
خاک اپنا خیال رکھّوں گا
کب نہیں ہے ترا خیال مجھے
وقت سے پہلے توڑ دے نہ کہیں
ٹوٹ جانے کا احتمال مجھے
میں کہ ہوں اک دیا محبت کا
طاقِ نسیاں سے مت نکال مجھے
تیری جانب جھکا سا رہتا ہوں
آگے آتا تھا اعتدال مجھے
غور سے اپنے دل کی بھی کبھی سن
میرے منصب پہ کر بحال مجھے
مل گیا ہوتا گر جواب کوئی
یوں نہ چبھتا مرا سوال مجھے
تیری آنکھوں سے پوچھ لوں گا کبھی
مت بتا اپنے دل کا حال مجھے
وقتِ فرقت کا مت حساب بتا
لمحہ لمحہ لگا ہے سال مجھے
تیری چشمِ خلوص افشاں سے
گر نہ جاؤں کہیں سنبھال مجھے
اُن کو پانے کی ہے خوشی راغبؔ
خود کو کھونے کا کیا ملال مجھے
افتخار راغبؔ
Be First to Comment