یوں آرہا ہے آج لبوں پر کسی کا نام
ہم پڑھ رہے ہوں جیسے چُھپا کر کسی کا نام
سُنسان یُوں تو کب سے ہے کُہسارِ باز دِید
کانوں میں گوُنجتا ہے برابر کسی کا نام
دی ہم نے اپنی جان تو قاتِل بنا کوئی
مشہُور اپنے دَم سے ہے گھر گھر کسی کا نام
ڈرتے ہیں اُن میں بھی نہ ہو اپنا رقیب کوئی
لیتے ہیں دوستوں سے چُھپا کر کسی کا نام
اپنی زبان تو بند ہے، تم خود ہی سوچ لو
پڑتا نہیں ہے یونہی سِتمگر کسی کا نام
ماتم سَرا بھی ہوتے ہیں کیا خود غَرَض قتیل
اپنے غموں پہ روتے ہیں لے کر کسی کا نام
قتیل شفائی
Be First to Comment