Skip to content

یہ جو مہر میں ہیں حرارتیں وہ ترا ظہورِ جلال ہے

یہ جو مہر میں ہیں حرارتیں وہ ترا ظہورِ جلال ہے
یہ جو کہکشاں میں ہے روشنی وہ ترا غبارِ جمال ہے

وہاں فاصلوں کی زیادتی سے عنایتوں میں کمی نہیں
کوئی دور رہ کے اویسؔ ہے کوئی پاس رہ کے بلالؔ ہے

رواں ندیاں رمِ آہواں زمیں آسماں نہیں سب جہاں
تری رحمتوں کے طفیل ہیں کہ زوال جن کا محال ہے

تراروضہ ہے میرے سامنے مگر اپنی شکل دکھاؤں کیا
یہ میں کس مقام پہ آگیا کہ نہ ہجرہے نہ وصال ہے

جو عطا پہ روز خطا کرے جو خطا پہ روز عطاکرے
ترے پاس میری مثال ہے مرے پاس تیری مثال ہے

دلِ عاشقاں جو نڈھال ہیں ذرا آپ ان کو سنبھال لیں
یہ کسی کے بوتے کی شے نہیں کہ یہ آپ ہی کا تو مال ہے

وہ خدا کے نور کو دیکھ کر بھی زمین والوں میں آگئے
سرِ عرش جانا کمال تھا کہ وہاں سے آنا کمال ہے

ذرا سِدرہ والے سے پوچھنا کہ مقامِ مصطفوی ہے کیا
جہاں جبرئیل کے پر جلیں وہ مقام ایسی مثال ہے

رہِ حق میں سردیا جان دی مگر اپنا ہاتھ نہیں دیا
جو حسینؓ ابن علیؓ نے دی کیا جہاں میں ایسی مثال ہے

میری آرزوئیں بڑھی ہوئیں کہ مدینے میرا قیام ہو
میرے حوصلوں کا شمار کیا تیری رحمتوں سے سوال ہے

تیرے درتلک بھی میں آگیا ابھی زندہ ہوں کہ ہوں بے حیا
مگر اپنی جان کا کیا کروں میری جان مجھ پہ وبال ہے

میں حدوُدِ طبیہ تک آگیا تِیرے درتلک نہیں آؤنگا
تیرے سامنے میراحال ہے میرے سامنے یہ سوال ہے

تری یاد دل میں محیط ہے مجھے اور سمت پتہ نہیں
نہ توشرق ہے نہ توغرب ہے نہ جنوب ہے نہ شمال ہے

میں تمہارے نام کی نسبتوں کے سہارے دنیا میں جی گیا
مجھے اپنا دیدار کروا دو اب میری عاقبت کا سوال ہے

ارے زار اشرفِؔ ناتواں کہاں نعت تیرا بیاں کہاں
ترا حق تھا تو نے اٹھالیا یہ رضاؔ کے توشے کا مال ہے

Published inNaat Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: