چشم میگوں ذرا ادھر کر دے
دست قدرت کو بے اثر کر دے
تیز ہے آج درد دل ساقی
تلخی مے کو تیز تر کر دے
جوش وحشت ہے تشنہ کام ابھی
چاک دامن کو تا جگر کر دے
میری قسمت سے کھیلنے والے
مجھ کو قسمت سے بے خبر کر دے
لٹ رہی ہے مری متاع نیاز
کاش وہ اس طرف نظر کر دے
فیضؔ تکمیل آرزو معلوم
ہو سکے تو یوں ہی بسر کر دے
Be First to Comment