Skip to content

Month: March 2021

آپ جن کو، ہدف تیرِ نظر کرتے ہیں

آپ جن کو، ہدف تیرِ نظر کرتے ہیں
رات دن، ہائے جگر ، ہائے جگر کرتے ہیں

اور کیا ” داغ ” کے “اشعار ” اثر کرتے ہیں
گدگدی، دل میں حسینوں کےمگر کرتے ہیں

غیر کے سامنے یوں ہوتے ہیں، شکوے مجھ سے
دیکھتے ہیں وہ ادھر ، بات اُدھر کرتے ہیں

دیکھ کر دور سے، ” درباں ” نے مجھے للکارا
نہ کہا یہ، ٹھہر جاؤ ، خبر کرتے ہیں

تھک گئے، ” نامہ اعمال ” کو لکھتے لکھتے
کیا فرشتوں کا برا حال بشر کرتے ہیں

ابھی غیروں سے اشاروں میں ہوئی ہیں باتیں
دیکھتے دیکھتے آپ آنکھوں میں گھر کرتے ہیں

در و دیوار سے، بھی رشک مجھے آتا ھے
غور سے، جب کسی جانب وہ نظر کرتے ہیں

ان سے پوچھے جو کوئی خاک میں ملتے ہیں کہاں
وہ اشارہ، ” طرفِ راہ گزر کرتے ہیں

ایک تو نشہ مے ، اس پہ نشیلی آنکھیں
ہوش اڑتے ہیں ، جدھر کو وہ، نظر کرتے ہیں

عشق میں صبر و تحمل ” ہی کیا کرتے ہم
یہ بھی کم بخت کسی وقت ضرر کرتے ہیں

” غیر ” کے قتل پہ باندھیں یہ بہانہ ھے فقط
کھینچ کر اور بھی پتلی وہ کمر کرتے ہیں

داغ دھلوی

Leave a Comment

میں ھُوں رات کا ایک بجا ھے

میں ھُوں رات کا ایک بجا ھے
خالی رستہ بول رھا ھے

آج تو یوں خاموش ھے دُنیا
جیسے کچھ ھونے والا ھے

کیسی اندھیری رات ھے دیکھو
اپنے آپ سے ڈر لگتا ھے

آج تو شہر کی رَوش رَوش پر
پتوں کا میلہ سا لگا ھے

آو گھاس پہ سَبھا جمائیں
میخانہ تو بند پڑا ھے

پُھول تو سارے جھڑ گئے لیکن
تیری یاد کا زخم ھرا ھے

تُو نے جتنا پیار کیا تھا
دُکھ بھی مجھے اتنا ھی دیا ھے

یہ بھی ھے ایک طرح کی محبت
میں تُجھ سے تُو مُجھ سے جُدا ھے

یہ تیری منزل ، وہ میرا رستہ
تیرا میرا ساتھ ھی کیا ھے

میں نے تو اِک بات کہی تھی
کیا تُو سَچ مُچ رُوٹھ گیا ھے

ایسا گاھک کون ھے جِس نے
سُکھ دے کر دُکھ مول لیا ھے

تیرا رستہ تکتے تکتے
کھیت گگن کا سُوکھ چلا ھے

کِھڑکی کھول کے دیکھ تو باھر
دیر سے کوئی شخص کھڑا ھے

ساری بستی سو گئی ناصر
تُو اب تک کیوں جاگ رھا ھے

Leave a Comment

خرد گزیدہ جنوں کا شکار یعنی میں

خرد گزیدہ جنوں کا شکار یعنی میں
ملا تھا غم کو بھی اک غم گسار یعنی میں
محبتیں نہ لُٹاتا تو اور کیا کرتا
وفورِ شوق کا آئینہ دار یعنی میں
عظیم چاک پہ تھی انکسار کی مٹّی
بنا تھا کوزہ کوئی شاہکار یعنی میں
چمک رہا تھا موافق تری توجّہ کے
خلوص و مہر و وفا کا دیار یعنی میں
مرے خدا نہیں تھمتا یہ ظلم کا طوفان
اور اس کے سامنے مشتِ غبار یعنی میں
ہوئی تھی جب بھی ترے التفات کی بارش
لہک اُٹھا تھا ترا لالہ زار یعنی میں
زہے نصیب! حوادث میں بھی نہیں ٹوٹا
ترا غرور، ترا افتخار یعنی میں
ہے مستقل مرے سینے میں درد یعنی توٗ
نہ رہ سکا ترے دل میں قرار یعنی میں
ہر ایک بات مری کر رہا تھا رد راغبؔ
مرے سخن پہ تھا کوئی سوار یعنی میں
افتخار راغبؔ

Leave a Comment

مجھ پہ بھی چشمِ کرم اے میرے آقا ﷺ کرنا

مجھ پہ بھی چشمِ کرم اے میرے آقا ﷺ کرنا
حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضا کرنا

تو کسی کو بھی اُٹھاتا نہیں اپنےدَر سے
کہ تیری شان کے شایاں نہیں ایسا کرنا

میں کہ ذرہ ہوں مجھے وُسعتِ صحرا دے دے
کہ تیرے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا

یہ تیرا کام ہے اے آمِنہ کے دُرِّ یتیم
ساری اُمَّت کی شفاعت تنِ تنہا کرنا

میں ہُوں بے کس تیرا شَیوا ہے سہارا دینا
میں ہوں بیمار تیرا کام ہے اچھا کرنا

چاند کی طرح تیرے گِرد وہ تاروں کا ہجوم
وہ تیرا حلقہ ٕ اصحاب میں بیٹھا کرنا

اُن صحابہ کی پُر اطوار نِگاہوں کو سلام
جنکا مسلک تھا طوافِ رُخِ زَیبا کرنا

کوٸی فاوق سے پوچھے کہ کسے آتا ہے
دِل کی دُنیاکو نظر سے تہ و بالا کرنا

مجھ پہ محشر میں نصیر اُنکی نظر پڑ ہی گٸی
کہنے والے اِسے کہتے ہیں خُدا کا کرنا

پیر نصیرُ الدین نصیر

Leave a Comment

اُجڑے ہوۓ ہڑپہ کے آثار کی طرح

اُجڑے ہوۓ ہڑپہ کے آثار کی طرح
زندہ ہیں لوگ وقت کی رفتار کی طرح

کیا رہنا ایسے شہر میں مجبوریوں کے ساتھ
بِکتے ہیں لوگ شام کے اخبار کی طرح

بچوں کا رزق موت کے جھولے میں رکھ دیا
سرکس میں ُکودتے ہوۓ فنکار کی طرح

قاتل براجمان ہوئے منصف کے ساۓ میں
مقتول پھر رہا ھے عزادار کی طرح

وعدے ضرورتوں کی نظر کر دئیے گئے
رشتے ہیں سارے ریت کی دیوار کی طرح

حسن میرے وجود کو سنسار کرتے وقت
شامل تھا سارا شہر اِک تہوار کی طرح


محسن نقوی

Leave a Comment

ایک گماں کا حال ہے، اور فقط گماں میں ہے

ایک گماں کا حال ہے، اور فقط گماں میں ہے
کس نے عذابِ جاں سہا، کون عذابِ جاں میں ہے

لمحہ بہ لمحہ، دَم بہ دَم، آن بہ آن، رَم بہ رَم
میں بھی گزشتگاں میں ہوں، تو بھی گزشتگاں میں ہے

آدمؑ و ذاتِ کبریا کَرب میں ہیں جُدا جُدا
کیا کہوں ان کا ماجرا، جو بھی ہے امتحاں میں ہے

شاخ سے اُڑ گیا پرند، ہے دلِ شامِ دردمند
صحن میں ہے ملال سا، حُزن سا سماں میں ہے

خودبھی بے اماں ہوں میں، تجھ میں بھی بے اماں ہوں میں
کون سہے گا اس کا غم، وہ جو میری اماں میں ہے

کیسا حساب، کیا حساب، حالتِ حال ہے عذاب
زخم نفس نفس میں ہے، زہر زماں زماں میں ہے

اس کا فراق بھی زیاں، اس کا وصال بھی زیاں
اِک عجیب کشمکش حلقۂ بے دِلاں میں ہے

بُود و نبُود کا حساب، میں نہیں جانتا مگر
سارے وجود کی ”نہیں“میرے عدم کی”ہاں“میں ہے

Leave a Comment
%d bloggers like this: