Skip to content

Month: August 2020

کوئی جائے طور پہ کس لئے کہاں اب وہ خوش نظری رہی

کوئی جائے طور پہ کس لئے کہاں اب وہ خوش نظری رہی
نہ وہ ذوق دیدہ وری رہا ، نہ وہ شان جلوہ گری رہی

جو خلش ہو دل کو سکوں ملے ، جو تپش ہو سوز دروں ملے
وہ حیات اصل میں کچھ نہیں ، جو حیات غم سے بری رہی

وہ خزاں کی گرم روی بڑھی تو چمن کا روپ جھلس گیا
کوئی غنچہ سر نہ اٹھا سکا ، کوئی شاخ گل نہ ہری رہی

مجھے بس ترا ہی خیال تھا ترا روپ میرا جمال تھا
نہ کبھی نگاہ تھی حور پر ، نہ کبھی نظر میں پری رہی

ترے آستاں سے جدا ہوا تو سکونِ دل نہ مجھے ملا
مری زندگی کے نصیب میں جو رہی تو دربدری رہی

ترا حسن آنکھ کا نور ہے ، ترا لطف وجہ سرور ہے
جو ترے کرم کی نظر نہ ہو تو متاع دل نظری رہی

جو ترے خیال میں گم ہوا تو تمام وسوسے مٹ گئے
نہ جنوں کی جامہ دری رہی ، نہ خرد کی درد سری رہی

مجھے بندگی کا مزا ملا ، مجھے آگہی کا صلہ ملا
ترے آستانہ ناز پر ، جو دھری جبیں تو دھری رہی

یہ مہ و نجوم کی روشنی ترے حسن کا پرتو بدل نہیں
ترا ہجر ، شب کا سہاگ تھا ، مرے غم کی مانگ بھری رہی

رہ عشق میں جو ہوا گزر ، دل و جاں کی کچھ نہ رہی خبر
نہ کوئی رفیق نہ ہم سفر ، مرے ساتھ بے خبری رہی

ترے حاسدوں کو ملال ہے ، یہ نصیر فن کا کمال ہے
ترا قول تھا جو سند رہا ، تری بات تھی جو کھری رہی

پیر نصیر الدین نصیر

Leave a Comment

دل پر جو زخم ہیں وہ دکھائیں کسی کو کیا

دل پر جو زخم ہیں وہ دکھائیں کسی کو کیا
اپنا شریک درد بنائیں کسی کو کیا

ہر شخص اپنے اپنے غموں میں ہے مبتلا
زنداں میں اپنے ساتھ رلائیں کسی کو کیا

بچھڑے ہوئے وہ یار وہ چھوڑے ہوئے دیار
رہ رہ کے ہم کو یاد جو آئیں کسی کو کیا

رونے کو اپنے حال پہ تنہائی ہے بہت
اس انجمن میں خود پہ ہنسائیں کسی کو کیا

وہ بات چھیڑ جس میں جھلکتا ہو سب کا غم
یادیں کسی کی تجھ کو ستائیں کسی کو کیا

سوئے ہوئے ہیں لوگ تو ہوں گے سکون سے
ہم جاگنے کا روگ لگائیں کسی کو کیا

جالبؔ نہ آئے گا کوئی احوال پوچھنے
دیں شہر بے حساں میں صدائیں کسی کو کیا


حبیب جالب

Leave a Comment

تجھ کو آتی ہے اگر کاری گری، سنگ تراش

تجھ کو آتی ہے اگر کاری گری، سنگ تراش
میرا چہرہ، مرا پیکر، مرا کوئی انگ تراش

یا تو پانی سے کوئی شیشہ بنا میرے لیے
یا تو آئینے سے یہ دھول ہٹا زنگ تراش

میرے آنچل کو بنانے کے لیے گھول دھنک
اور پھر پھول سے تتلی سے کئی رنگ تراش

تیرے ہاتھوں میں کئی سر ہیں، یہ دعوی ہے ترا
چل کوئی ساز ہی لکڑی سے بنا، چنگ تراش

کورے کاغذ پہ بھی کاڑھے ہیں شجر، پھول، ثمر
شعر کہنا ہے تو کچھ ذائقہ کچھ ڈھنگ تراش

جیسے ترشا ہے یہ سورج کسی پرکار کے ساتھ
تو بھی آوزار اٹھا ایسا کوئی شنگ تراش

میں بناؤں گی کھلا اور وسیع ایک جہان
میں نہیں قید، گھٹن، قبر، قفس، تنگ، تراش

کام میرا ہے بناؤں میں شہد اور شہد
تو مگر زیر بنا اور بنا، ڈنگ تراش

تو تو مٹی کے طلسمات سے واقف تھا حسن
کیوں جہاں زاد کے جلوے سے ہوا دنگ، تراش

Leave a Comment

بھڑکائیں مری پیاس کو اکثر تری آنکھیں

بھڑکائیں مری پیاس کو اکثر تری آنکھیں
صحرا مرا چہرا ہے سمندر تری آنکھیں

پھر کون بھلا داد تبسم انہیں دے گا
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تری آنکھیں

خالی جو ہوئی شام غریباں کی ہتھیلی
کیا کیا نہ لٹاتی رہیں گوہر تیری آنکھیں

بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن
کھلتی ہیں بہت دل میں اتر کر تری آنکھیں

اب تک مری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا
بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تری آنکھیں

ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں
پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تری آنکھیں

میں سنگ صفت ایک ہی رستے میں کھڑا ہوں
شاید مجھے دیکھیں گی پلٹ کر تری آنکھیں

یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسنؔ
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تری آنکھیں

محسن نقوی

Leave a Comment

ہم کسی چشمِ فسوں ساز میں رکھے ہوئے ہیں

ہم کسی چشمِ فسوں ساز میں رکھے ہوئے ہیں
خواب ہیں، خواب کے انداز میں رکھے ہوئے ہیں

تاب انجامِ محبت کی بھلا کیا لاتے
ناتواں دل وہیں آغاز میں رکھے ہوئے ہیں

جلتے جائیں گے ابھی اور چراغوں سے چراغ
جب تری انجمنِ ناز میں رکھے ہوئے ہیں

اے ہوا! اور خزاوں کے علاوہ کیا ہے
وسوسے کیوں تری آواز میں رکھے ہوئے ہیں

اک ستارے کو تو میں صبح تلک لے آئی
بیشتر رات کے آغاز میں رکھے ہوئے ہیں

ہم تو ہیں آبِ زرِ عشق سے لکھے ہوئے حرف
بیش قیمت ہیں، بہت راز میں رکھے ہوئے ہیں

Leave a Comment

تشنگی آنکھوں میں اور دریا خیالوں میں رہے

تشنگی آنکھوں میں اور دریا خیالوں میں رہے
ہم نوا گر، خوش رہے جیسےبھی حالوں میں رہے

اس قدر دنیا کے دکھ اے خوبصورت زندگی
جس طرح تتلی کوئی مکڑی کے جالوں میں‌رہے

دیکھنا اے راہ نوردِ شوق! کوئے یار تک
کچھ نہ کچھ رنگِ حنا پاؤں کے چھالوں میں رہے

ہم سے کیوں مانگے حسابِ جاں کوئی جب عمر بھر
کون ہیں، کیا ہیں، کہاں ہیں؟ ان سوالوں میں رہے

بدظنی ایسی کہ غیروں کی وفا بھی کھوٹ تھی
سوئے ظن ایسا کہ ہم اپنوں‌ کی چالوں میں رہے

ایک دنیا کو مری دیوانگی خوش آگئی
یار مکتب کی کتابوں کے حوالوں میں رہے

عشق میں دنیا گنوائی ہے نہ جاں دی ہے فراز
پھر بھی ہم اہل محبت کی مثالوں میں رہے

احمد فراز

Leave a Comment

عشق کے کشف و کرامات کی پابند نہیں

عشق کے کشف و کرامات کی پابند نہیں
میری مرضی ، میں کسی بات کی پابند نہیں

اپنے ہاتھوں کے اشاروں پہ چلاتی ہے ہمیں
زندگی حکم و ہدایات کی پابند نہیں

جن میں انسان کو کھا جائے فقط نام و نمود
ایسی فرسودہ روایات کی پابند نہیں

تیرے کہنے پہ چلی آؤں ، یہ امید نہ رکھ
میں ترے شوقِ ملاقات کی پابند نہیں

حبس بڑھتا ہے تو پھر رنگ سخن دیکھا کر
شاعری موسمِ برسات کی پابند نہیں

چھلنے لگتے ہیں مرے زخم سحر دم کومل
اب وہ وحشت ہے کہ جو رات کی پابند نہیں

کومل جوئیہ

Leave a Comment

تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں

تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں
ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں

کس کو خبر تھی سانولے بادل بن برسے اڑ جاتے ہیں
ساون آیا لیکن اپنی قسمت میں برسات نہیں

ٹوٹ گیا جب دل تو پھر یہ سانس کا نغمہ کیا معنی
گونج رہی ہے کیوں شہنائی جب کوئی بارات نہیں

غم کے اندھیارے میں تجھ کو اپنا ساتھی کیوں سمجھوں
تو پھر تو ہے میرا تو سایہ بھی میرے ساتھ نہیں

مانا جیون میں عورت اک بار محبت کرتی ہے
لیکن مجھ کو یہ تو بتا دے کیا تو عورت ذات نہیں

ختم ہوا میرا فسانہ اب یہ آنسو پونچھ بھی لو
جس میں کوئی تارا چمکے آج کی رات وہ رات نہیں

میرے غمگیں ہونے پر احباب ہیں یوں حیران قتیلؔ
جیسے میں پتھر ہوں میرے سینے میں جذبات نہیں

قتیلؔ شفائی

Leave a Comment

درد ہے کہ نغمہ ہے فیصلہ کیا جائے

درد ہے کہ نغمہ ہے فیصلہ کیا جائے
یعنی دل کی دھڑکن پر غور کر لیا جائے

آپ کتنے سادہ ہیں چاہتے ہیں بس اتنا
ظلم کے اندھیرے کو رات کہہ لیا جائے

آج سب ہیں بے قیمت گریہ بھی تبسّم بھی
دل میں ہنس لیا جائے دل میں رو لیا جائے

بے حسی کی دنیا سے دو سوال میرے بھی
کب تلک جیا جائے اور کیوں جیا جائے

داستاں کوئی بھی ہو جو بھی کہنے والا ہو
درد ہی سنا جائے درد ہی کہا جائے

اب تو فقر و فاقہ کی آبرو اسی سے ہے
تار تار دامن کو کیوں بھلا سیا جائے

پیرزادہ قاسم

Leave a Comment

کالی راتوں کو بھی رنگین کہا ہے میں نے

کالی راتوں کو بھی رنگین کہا ہے میں نے
تیری ہر بات پہ آمین کہا ہے میں نے

تیری دستار پہ تنقید کی ہمت تو نہیں
اپنی پاپوش کو قالین کہا ہے میں نے

مصلحت کہیے اسے یا کہ سیاست کہیے
چیل کوؤں کو بھی شاہین کہا ہے میں نے

ذائقے بارہا آنکھوں میں مزا دیتے ہیں
بعض چہروں کو بھی نمکین کہا ہے میں نے

تو نے فن کی نہیں شجرے کی حمایت کی ہے
تیرے اعزاز کو توہین کہا ہے میں نے

راحت اندوری

Leave a Comment
%d bloggers like this: