Skip to content

Month: June 2020

دل کو اک بات کہہ سنانی ہے

دل کو اک بات کہہ سنانی ہے
ساری دنیا فقط کہانی ہے

تو میری جان داستان تھا کبھی
اب ترا نام داستانی ہے

سہہ چکے زخمِ التفات تیرا
اب تری یاد آزمانی ہے

اک طرف دل ہے، اک طرف دنیا
یہ کہانی بہت پرانی ہے

تھا سوال ان اداس آنکھوں کا
زندگی کیا نہیں گنوانی ہے

کیا بتاؤں میں اپنا پاسِ انا
میں نے ہنس ہنس کے ہار مانی ہے

ہوس انگیز ہے بدن میرا
ہائے میری ہوس کہ فانی ہے

روز مرہ ہے زندگی کا عجیب
رات ہے اور نیند آنی ہے

زندگی کس طرح گزاروں میں
مجھ کو روزی نہیں کمانی ہے

جون ایلیا

Leave a Comment

ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے

ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے
مری جاں چاہنے والا بڑی مشکل سے ملتا ہے

کہیں ہے عید کی شادی کہیں ماتم ہے مقتل میں
کوئی قاتل سے ملتا ہے کوئی بسمل سے ملتا ہے

پس پردہ بھی لیلیٰ ہاتھ رکھ لیتی ہے آنکھوں پر
غبار ناتوان قیس جب محمل سے ملتا ہے

بھرے ہیں تجھ میں وہ لاکھوں ہنر اے مجمع خوبی
ملاقاتی ترا گویا بھری محفل سے ملتا ہے

مجھے آتا ہے کیا کیا رشک وقت ذبح اس سے بھی
گلا جس دم لپٹ کر خنجر قاتل سے ملتا ہے

بظاہر با ادب یوں حضرت ناصح سے ملتا ہوں
مرید خاص جیسے مرشد کامل سے ملتا ہے

مثال گنج قاروں اہل حاجت سے نہیں چھپتا
جو ہوتا ہے سخی خود ڈھونڈ کر سائل سے ملتا ہے

جواب اس بات کا اس شوخ کو کیا دے سکے کوئی
جو دل لے کر کہے کم بخت تو کس دل سے ملتا ہے

چھپائے سے کوئی چھپتی ہے اپنے دل کی بیتابی
کہ ہر تار نفس اپنا رگ بسمل سے ملتا ہے

عدم کی جو حقیقت ہے وہ پوچھو اہل ہستی سے
مسافر کو تو منزل کا پتا منزل سے ملتا ہے

غضب ہے داغؔ کے دل سے تمہارا دل نہیں ملتا
تمہارا چاند سا چہرہ مہ کامل سے ملتا ہے

Leave a Comment

اک دن زباں سکوت کی، پوری بناؤں گا

اک دن زباں سکوت کی، پوری بناؤں گا
میں گفتگو کو غیر ضروری بناؤں گا

تصویر میں بناؤں گا دونوں کے ہاتھ اور
دونوں میں ایک ہاتھ کی دوری بناؤں گا

مدت سمیت جملہ ضوابط ہوں طے شدہ
یعنی تعلقات، عبوری بناؤں گا

تجھ کو خبر نہ ہو گی کہ میں آس پاس ہوں
اس بار حاضری کو حضوری بناؤں گا

رنگوں پہ اختیار اگر مل سکا کبھی
تیری سیاہ پتلیاں، بھوری بناؤں گا

جاری ہے اپنی ذات پہ تحقیق آج کل
میں بھی خلا پہ ایک تھیوری بناؤں گا

میں چاہ کر وہ شکل مکمل نہ کر سکا
اس کو بھی لگ رہا تھا ادھوری بناؤں گا

عمیرؔ نجمی

Leave a Comment

جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ

جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ

مل بھی لیتے ہیں گلے سے اپنے مطلب کے لئے
آ پڑے مشکل تو نظریں بھی چرا لیتے ہیں لوگ

خود فریبی کی انہیں عادت سی شاید پڑ گئی
ہر نئے رہزن کو سینے سے لگا لیتے ہیں لوگ

ہے بجا ان کی شکائت لیکن اس کا کیا علاج
بجلیاں خود اپنے گلشن پر گرا لیتے ہیں لوگ

ہو خوشی بھی ان کو حاصل یہ ضروری تو نہیں
غم چھپانے کے لئے بھی مسکرا لیتے ہیں لوگ

اس قدر نفرت ہے ان کو تیرگی کے نام سے
روزِ روشن میں بھی اب شمعیں جلا لیتے ہیں لوگ

یہ بھی دیکھا ہے کہ جب آ جائے غیرت کا مقام
اپنی سولی اپنے کاندھے پر اٹھا لیتے ہیں لوگ

روشنی ہے ان کا ایماں روک مت ان کو قتیل
دل جلاتے ہیں یہ اپنا تیرا کیا لیتے ہیں لوگ۔

قتیل شفائی

Leave a Comment

ﮨﻢ ﻓﻘﻴﺮﻭﮞ کی ﺳﺐ کے ﺗﺌﻴﮟ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﮨﻢ ﻓﻘﻴﺮﻭﮞ کی ﺳﺐ کے ﺗﺌﻴﮟ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ
ﻣﻌﺬﺭﺕ ! ﺑﺲ ﺩﻡِ ﻭﺍﭘﺴﻴﮟ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﮨﻢ سفر ! ﭘﺎﺅﮞ ﺳﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﻣﻠﺘﮯ ﻧﮩﻴﮟ
ﮨﻢ ﺳﻔﺮ ! ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﺮ لوں ﻳﮩﻴﮟ ،ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺟﺲ کی ﻗﻴﻤﺖ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺁﭖ ﺁﮰ ﮨﻴﮟ
ﻭﮦ ﮐﻮئی ﺍﻭﺭ ہے! ﻣﻴﮟ ﻧﮩﻴﮟ ! ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﮨﻢ ﺍﻧﺎ ﺯﺍﺩﻭﮞ کی ﺗﺮﺑﻴﺖ ﺍﻭﺭ ہے
ﮨﻢ ﺟﮭﮑﺎﺗﮯ ﻧﮩﻴﮟ ﮨﻴﮟ ﺟﺒﻴﮟ ،ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺟﯽ ﻣﻴﮟ ﺁﺗﺎ ھے ﮔﮭﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭﮞ ﺍﻳﮏ ﺷﺐ
ﺍﻭﺭ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﻴﮟ ﻟﮑﮫ ﺩﻭﮞ ﮐﮩﻴﮟ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﮨﻢ ﻧﮯ ﺭﮐﻨﺎ ﻧﮩﻴﮟ ﺭﮐﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮ ! ﻣﮕﺮ
ﻋﺎﻓﻴﺖ ! ﺗﮩﻨﻴﺖ ! ﺁﻓﺮﻳﮟ ! ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﻣﻴﮟ ﺗﺮﮮ ﺑﺎﺏ ﻣﻴﮟ کچھ ﻧﮩﻴﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺎ
ﻣﻌﺬﺭﺕ ! ﺍﮮ ﺩﻝِ ﺧﻮش ﻳﻘﻴﮟ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﮨﻢ ﮐﮩﻴﮟ کے ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻧﮩﻴﮟ ﺭﮦ ﺳﮑﮯ
ﺍﮮ ﻓﻠﮏ ﺍﻋﺘﺰﺍﺭ ! ﺍﮮ ﺯﻣﻴﮟ ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﻃﺎﻟﺐِ ﺧﻮﺩ ﻓﺮﻭﺷﯽ کے ﺩﺭﺑﺎﺭ ﻣﻴﮟ
ﻣﻴﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﻟﮑﮫ ﺩﻭ ،ﻧﮩﻴﮟ ! ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺩﻋﻮﺗﻴﮟ ﺩﻭ ﮨﻴﮟ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﻳﮏ ہے
ﺍﮨﻞِ ﺩﻝ ﺷﮑﺮﻳﮧ ! ﺍﮨﻞِ ﺩﻳﮟ ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺍﻓﺘﺨﺎﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﺲ ﺍﮎ ﺩﻋﺎﮰ ﺍﺑﺪ
ﺍﻓﺘﺨﺎﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﮎ ﺁﺧﺮﻳﮟ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

Leave a Comment

غـــــــــمِ عاشقی سے کہہ دو رہِ عـــــام تک نہ پہنچے

غـــــــــمِ عاشقی سے کہہ دو رہِ عـــــام تک نہ پہنچے
مُجھے خَـوف ہے یہ تہمت مِــــــرے نام تک نہ پہنچے

میں نظـــــر سے پی رہا تھا تو یہ دِل نے بَد دُعـــــا دی
تیرا ہاتھ زِنــــدگی بھـــر کبھی جــــــام تک نہ پہنچے

وہ نَوائے مُضمحل کیا نہ ہو جس میں دِل کی دَھـڑکن
وہ صَـــــــــدائے اہلِ دل کیا جو عــــوام تک نہ پہنچے

مِـــــرے طــــائرِ نَفَس کــــــو نہیں باغباں سے رَنجِش
مِلے گھـــــــــر میں آب و دانہ تو یہ دام تک نہ پہنچے

نئی صبح پر نظــــــــــــــــــر ہے، مگر آہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحـــــــر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے

یہ ادائے بے نیـــــازی تجھے بے وَفـــــــــــــا مُبــــــارک
مگـــر ایسی بے رُخی کیا کہ سَـــــــــلام تک نہ پہنچے

جو نقابِ رُخ اُٹھـــــا دی تو یہ قیــــــــــد بھی لگا دی
اُٹھے ہر نگاہ لیکن کـــــــــــــــــــوئی بام تک نہ پہنچے

انہیں اپنے دِل کی خبــریں، مِرے دِل سے مِل رہی ہیں
میں جو اُن سے رُوٹھ جــــــاؤں تو پَیام تک نہ پہنچے

وہی اِک خموش نغمــہ، ہے شکیل جــــــــــــــانِ ہستی
جـــــــــو زبان پـر نـہ آئے، جـــــــو کلام تک نہ پہنچے

Leave a Comment

مجھے افسرِ شاہانہ بنایا ہوتا

مجھے افسرِ شاہانہ بنایا ہوتا
یا مرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا

اپنا دیوانہ بنایا مجھے ہوتا،تو نے
کیوں خرد مند بنایا،نہ بنایا ہوتا

خاکساری کے لیے گرچہ بنایا تھا مجھے
کاش خاک درِ جانانہ بنایا ہوتا

تشنہ عشق کا گر ظرف دیا تھا مجھ کو
عمر کا تنگ نہ پیمانہ بنایا ہوتا

دلِ صد چاک بنایا تو بلا سے لیکن
زلفِ مشکیں کا تیرے شانہ بنایا ہوتا

شُعلہٕ حسن چمن میں نہ دکھایا اُس نے
ورنہ بُل بُل کو بھی پروانہ بنایا ہوتا

روز معمورہٕ دنیا میں خرابی ہے ظفر
ایسی بستی کو تو ویرانہ بنایا ہوتا

بہادر شاہ ظفر

Leave a Comment

ہلکا سا تبسم ترے لب ہائے حَسیں پر

ہلکا سا تبسم ترے لب ہائے حَسیں پر
مجبور نہ کر مُجھ کو مَحبّت کے یقیں پر

اے تو! کہ شرارت سے نہیں پاؤں زمیں پر
تھوڑی سی عنایت بھی کسی خاک نشین پر

حق ہے کہ ستاؤ مگر اتنا نہ ستاؤ
پڑ جائے مری آنکھ کسی اور حَسیں پر

حالات جدائی الم انگیز نہیں ہیں
لکھا ہے ترا نام مری لوحِ جبیں پر

یہ بھیگی ہوئی رات یہ کیفیتِ عرفاں
چاہوں تو ستارے بھی اتر آئیں زمیں پر

ہاں ہم نے ہی کھائے ہیں دلِ زار پہ چرکے
ہم قتل بھی ہو جائیں تو الزام ہمیں پر

لہجے کی درشتی لبِ نازک پہ گراں ہے
اوراقِ سمَن صَرف نہ کر لفظِ ‘نہیں’ پر

وہ میرے لیے موردِ الزام محبّت
آتا ہے ترس شاد مجھے حُسنِ حَزیں پر

شاد عارفی

Leave a Comment
%d bloggers like this: