Skip to content

Month: April 2020

یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے

یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے
ان سے مت مل کہ انہیں روگ ہیں خوابوں والے

اب مہ و سال کی مہلت نہیں ملنے والی
آ چکے اب تو شب و روز عذابوں والے

اب تو سب دشنہ و خنجر کی زباں بولتے ہیں
اب کہاں لوگ محبت کے نصابوں والے

جو دلوں پر ہی کبھی نقب زنی کرتے تھے
اب گھروں تک چلے آئے وہ نقابوں والے

زندہ رہنے کی تمنا ہو تو ہو جاتے ہیں
فاختاؤں کے بھی کردار عقابوں والے

نہ مرے زخم کِھلے ہیں نہ ترا رنگِ حنا
اب کے موسم ہی نہیں آئے گلابوں والے

یوں تو لگتا ہے کہ قسمت کا سکندر ہے فرازؔ
مگر انداز ہیں سب خانہ خرابوں والے

Leave a Comment

یہ جو مہر میں ہیں حرارتیں وہ ترا ظہورِ جلال ہے

یہ جو مہر میں ہیں حرارتیں وہ ترا ظہورِ جلال ہے
یہ جو کہکشاں میں ہے روشنی وہ ترا غبارِ جمال ہے

وہاں فاصلوں کی زیادتی سے عنایتوں میں کمی نہیں
کوئی دور رہ کے اویسؔ ہے کوئی پاس رہ کے بلالؔ ہے

رواں ندیاں رمِ آہواں زمیں آسماں نہیں سب جہاں
تری رحمتوں کے طفیل ہیں کہ زوال جن کا محال ہے

تراروضہ ہے میرے سامنے مگر اپنی شکل دکھاؤں کیا
یہ میں کس مقام پہ آگیا کہ نہ ہجرہے نہ وصال ہے

جو عطا پہ روز خطا کرے جو خطا پہ روز عطاکرے
ترے پاس میری مثال ہے مرے پاس تیری مثال ہے

دلِ عاشقاں جو نڈھال ہیں ذرا آپ ان کو سنبھال لیں
یہ کسی کے بوتے کی شے نہیں کہ یہ آپ ہی کا تو مال ہے

وہ خدا کے نور کو دیکھ کر بھی زمین والوں میں آگئے
سرِ عرش جانا کمال تھا کہ وہاں سے آنا کمال ہے

ذرا سِدرہ والے سے پوچھنا کہ مقامِ مصطفوی ہے کیا
جہاں جبرئیل کے پر جلیں وہ مقام ایسی مثال ہے

رہِ حق میں سردیا جان دی مگر اپنا ہاتھ نہیں دیا
جو حسینؓ ابن علیؓ نے دی کیا جہاں میں ایسی مثال ہے

میری آرزوئیں بڑھی ہوئیں کہ مدینے میرا قیام ہو
میرے حوصلوں کا شمار کیا تیری رحمتوں سے سوال ہے

تیرے درتلک بھی میں آگیا ابھی زندہ ہوں کہ ہوں بے حیا
مگر اپنی جان کا کیا کروں میری جان مجھ پہ وبال ہے

میں حدوُدِ طبیہ تک آگیا تِیرے درتلک نہیں آؤنگا
تیرے سامنے میراحال ہے میرے سامنے یہ سوال ہے

تری یاد دل میں محیط ہے مجھے اور سمت پتہ نہیں
نہ توشرق ہے نہ توغرب ہے نہ جنوب ہے نہ شمال ہے

میں تمہارے نام کی نسبتوں کے سہارے دنیا میں جی گیا
مجھے اپنا دیدار کروا دو اب میری عاقبت کا سوال ہے

ارے زار اشرفِؔ ناتواں کہاں نعت تیرا بیاں کہاں
ترا حق تھا تو نے اٹھالیا یہ رضاؔ کے توشے کا مال ہے

Leave a Comment

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

نہ تن میں‌ خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نمازِ شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی

کسی طرح تو جمے بزم میکدے والو
نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہو ہی سہی

گر انتظار کٹھن ہے تو جب تلک اے دل
کسی کے وعدہء فردا کی گفتگو ہی سہی

دیارِ غیر میں محرم اگر نہیں کوئی
تو فیض ذکرِ وطن اپنے روبرو ہی سہی

Leave a Comment

محشر میں پاس کیوں دمِ فریاد آگیا

محشر میں پاس کیوں دمِ فریاد آگیا
رحم اس نے کب کیا تھا کہ اب یاد آگیا

الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں‌ صیّاد آگیا

ناکامیوں میں تم نے جو تشبیہ مجھ سے دی
شیریں کو درد تلخیِ فرہاد آگیا

ہم چارہ گر کو یوں ہی پہنائیں گے بیڑیاں
قابو میں اپنے گر وہ پری زاد آگیا

دل کو قلق ہے ترکِ محبت کے بعد بھی
اب آسماں کو شیوہء بے داد آگیا

وہ بدگماں ہوا جو کبھی شعر میں مرے
ذکرِ بتانِ خلخ و نوشاد آگیا

تھے بے گناہ جراءتِ پابوس تھی ضرور
کیا کرتے وہم خجلتِ جلاد آگیا

جب ہوچکا یقیں کہ نہیں طاقتِ وصال
دم میں ہمارے وہ ستم ایجاد آگیا

ذکرِ شراب و حور کلامِ خدا میں دیکھ
مومنؔ میں کیا کہوں مجھے کیا یاد آگیا

(حکیم مومن خان مومنؔ)

Leave a Comment

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے، اسے چپکے چپکے پڑھا کرو

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے، ذرا فاصلے سے ملا کرو

مجھے اشتہار سی لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں
جو کہا نہیں وہ سنا کرو، جو سنا نہیں وہ کہا کرو

ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں، کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمھیں جس نے دل سے بھلا دیا، اسے بھولنے کی دعا کرو

کبھی حسنِ پردہ نشیں بھی ہو ذرا عاشقانہ لباس میں
جو میں بن سنور کہیں چلوں، مرے ساتھ تم بھی چلا کرو

نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو
اسے اتنی گرمیِ شوق سے بڑی دیر تک نہ تکا کرو

یہ خزاں کی زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے
یہ تمھارے گھر کی بہار ہے، اسے آنسوؤں سے ہرا کرو

بشیر بدر

Leave a Comment

آنکھوں سے مری اس لیے لالی نہیں جاتی

آنکھوں سے مری اس لیے لالی نہیں جاتی
یادوں سے کوئی رات جو خالی نہیں جاتی

اب عمر نہ موسم نہ وہ رستے کہ وہ پلٹے
اس دل کی مگر خام خیالی نہیں جاتی

مانگے تو اگر جان بھی ہنس کے تجھے دے دیں
تیری تو کوئی بات بھی ٹالی نہیں جاتی

آئے کوئی آ کر یہ ترے درد سنبھالے
ہم سے تو یہ جاگیر سنبھالی نہیں جاتی

معلوم ہمیں بھی ہیں بہت سے ترے قصے
پر بات تری ہم سے اچھالی نہیں جاتی

ہم راہ ترے پھول کھلاتی تھی جو دل میں
اب شام وہی درد سے خالی نہیں جاتی

ہم جان سے جائیں گے تبھی بات بنے گی
تم سے تو کوئی راہ نکالی نہیں جاتی

وصی شاہ

Leave a Comment

تجھے میں ڈھونڈ رہا ہوں مگر نہیں ہے تُو

تجھے میں ڈھونڈ رہا ہوں مگر نہیں ہے تُو
مجھے یقین ہے لیکن یہیں کہیں ہے تُو

مجھے تو عشق سکھائے گا؟ چھوڑ دے پیارے
میں اوّلیں ہوں محبّت میں آخریں ہے تُو

ذہین ہم بھی بہت ہیں مگر خدا کی قسم
فقط ذہین نہیں ہے بہت حَسیں ہے تُو

میں کیاکہوں کہ تجھےچاہتاہوں کیوں جاناں
اگرچہ لوگ یہ کہتے ہیں مہ جَبیں ہے تُو

بس ایک تم سےمحبّت ہے،تھی،رہے گی سدا
کہ دل مُحلے میں جاناں فَقط مکیں ہے تُو

کبھی جو پوچھا گیا ہے تمہارے بارے میں
یہی کہا کہ مری جان بہتریں ہے تُو

جنون عقل سے آگے نکل گیا اشرف
وَگرنہ لوگ یہ کہتے تھے پیش بیں ہے تُو

Leave a Comment

کبھی جب مدتوں کے بعد اُس کا سامنا ہو گا

کبھی جب مدتوں کے بعد اُس کا سامنا ہو گا
سوائے پاس آدابِ تکلّف اور کیا ہو گا؟
یہاں وہ کون ہے جو انتخاب غم پہ قادر ہے
جو مل جائے وہی غم دوستوں کا مدعا ہو گا
نوید سر خوشی جب آئے گی اس وقت تک شاید
ہمیں زہرِ غم ہستی گوارا ہو چکا ہو گا
صلیبِ وقت پر میں نے پُکارا تھا محبت کو
میری آواز جس نے بھی سُنی ہو گی، ہنسا ہو گا
ابھی اِک شورِ ہائے و ہو سنا ہے ساربانوں نے
وہ پاگل قافلے کے ضِد میں پیچھے رہ گیا ہو گا
ہمارے شوق کے آسودہ و خُوشحال ہونے تک
تمھارے عارض و گیسُو کا سودا ہو چکا ہو گا
نوائیں، نکہتیں، آسودہ چہرے، دلنشیں رشتے
مگر اک شخص اس ماحول میں کیا سوچتا ہو گا
ہنسی آتی ہے مجھ کو مصلحت کے ان تقاضوں پر
کہ اب ایک اجنبی بن کر اُسے پہچاننا ہو گا
دلیلوں سے دوا کا کام لینا سخت مُشکل ہے
مگر اس غم کی خاطر یہ ہُنر بھی سیکھنا ہو گا
وہ منکر ہے تو پھر شاید ہر اک مکتوب شوق اس نے
سر انگشتِ حنائی سے خلاؤں میں لکھا ہو گا
ہے نصفِ شب، وہ دیوانہ ابھی تک گھر نہیں آیا
کسی سے چاندنی راتوں کا قصہ چھڑ گیا ہو گا
صبا! شکوہ ہے مجھ کو ان دریچوں سے ، دریچوں سے؟
دریچوں میں تو دیمک کے سوا اب اور کیا ہوگا
جون ایلیا

Leave a Comment

غم ہائے روز گار میں الجھا ہوا ہوں میں

غم ہائے روز گار میں الجھا ہوا ہوں میں
اس پر ستم یہ ہے اسے یاد آ رہا ہوں میں
ہاں اُس کے نام میں نے کوئی خط نہیں لکھا
کیا اُس کو یہ لکھوں کہ لہو تھوکتا ہوں میں
کرب غم شعور کا درماں نہیں شراب
یہ زہر ہےاثر ہے اسے پی چکا ہوں میں
اے زندگی بتا کہ سرِ جادہ ءِ شتاب
یہ کون کھو گیا ہے کسے ڈھونڈتا ہوں میں
اے وحشتو! مجھے اسی وادی میں لے چلو
یہ کون لوگ ہیں، یہ کہاں آ گیا ہوں میں
شعر و شعور اور یہ شہرِ شمار شور
بس ایک قرض ہے جو ادا کر رہا ہوں میں
یہ تلخیاں یہ زخم، یہ ناکامیاں یہ غم
یہ کیا ستم کہ اب بھی ترا مدعا ہوں میں
میں نے غم حیات میں تجھ کو بھلا دیا
حسن وفا شعار، بہت بے وفا ہوں میں
عشق ایک سچ تھا تجھ سے جو بولا نہیں کبھی
عشق اب وہ جھوٹ ہے جو بہت بولتا ہوں میں
معصوم کس قدر تھا میں آغازِ عشق میں
اکثر تو اس کے سامنے شرما گیا ہوں میں
دنیا میرے ہجوم کی آشوب گاہ ہے
اور اپنے اس ہجوم میں تنہا کھڑا ہوں میں
وہ اہلِ شہر کون تھے وہ شہر تھا کہاں
ان اہلِ شہر میں سے ہوں اس شہر کا ہوں میں

جون ایلیا

Leave a Comment
%d bloggers like this: