Skip to content

Month: April 2020

آنکھوں سے ہی بتلائیں گے ! جس کا قصّہ پوچھے گا

آنکھوں سے ہی بتلائیں گے ! جس کا قصّہ پوچھے گا
ہم تو چُپ کے پِیر ہیں اب تُو ہم سے کیا کیا پوچھے گا ؟

رَگ رَگ اندر عشق ہے کتنا ؟ سب پیشانی جانتی ہے
کچی نیّت باندھنے والو ! تم کو سجدہ پوچھے گا

سرخ آنکھوں پر بات تو ہو گی! دیکھو یار زمانہ ہے
جب بتلا نہیں سکتی ہو تو ! مت رو ! ورنہ پوچھے گا

اتنی پردہ دار اذیت کیوں چپ رہ کر کاٹتے ہو ؟
چاہے مجھ سے درد نہ پوچھے لیکن پردہ پوچھے گا

میں بھی خود ہی اک دن اپنا نام اور شکل گنوا دوں گا
تُو بھی کون سا ان گلیوں میں آ کر میرا پوچھے گا

آپ ملے تو اس ملنے میں ہم یہ بات ہی بھول گئے
اک دن آپ کا ہجر بھی ہم کو اچھا خاصا پوچھے گا

ہم سے ہمارا چھوڑ کے اِس کا، اُس کا، سب کا پوچھ لیا
سوچ رہے ہیں اب وہ ہم سے جانے کس کا پوچھے گا

چھوڑ دِلا ! تُو اِن لوگوں کی باتوں سے بے چین نہ ہو
اِن کی آگے خیر نہیں ہے ! اِن کو اللہ پوچھے گا

جس دن آپ نے اس دنیا سے دور کہیں جا بسنا ہے
زین اسی دن سکھ بھی آپ کے گھر کا رستہ پوچھے گا

زین شکیل

Leave a Comment

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
 مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

 ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
 کوئی بات صبرآزما چاہتا ہوں

 یہ جنّت مبارک رہے زاہدوں کو
 کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

 ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
 وہی لن ترانی سُنا چاہتا ہوں

 کوئی دَم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل
 چراغِ سحَر ہوں، بُجھا چاہتا ہوں

 بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
 بڑا بے ادب ہوں، سزا چاہتا ہوں

Leave a Comment

ساز، یہ کینہ ساز کیا جانیں

ساز، یہ کینہ ساز کیا جانیں
ناز والے نیاز کیا جانیں

کب کسی در کی جُبّہ سائی کی
شیخ صاحب نماز کیا جانیں

جو رہِ عشق میں قدم رکھیں
وہ نشیب و فراز کیا جانیں

پوچھئے مے کشوں سے لطفِ شراب
یہ مزہ پاک باز کیا جانیں

حضرتِ خضر جب شہید نہ ہوں
لطفِ عمرِ دراز کیا جانیں

جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے
آپ بندہ نواز کیا جانیں

داغ دہلوی

Leave a Comment

تِرے خواب بھی ہُوں گنوارہا ، ترے رنگ بھی ہیں بکھررہے

تِرے خواب بھی ہُوں گنوارہا ، ترے رنگ بھی ہیں بکھررہے
یہی روز و شب ہیں تو جانِ جاں یہ وظیفہ خوار تو مررہے

وہی روزگار کی محنتیں کہ نہیں ہے فرصتِ یک نَفَس
یہی دن تھے کام کے اور ہم کوئی کام بھی نہیں کررہے

ہمیں شکوا تیری ادا سے ہے تری چشمِ حال فزا سے ہے
کہ دریچہ آگے بھی ہم ترے یونہی بے نشاطِ ہُنر رہے

مرا دل ہے خوں کہ ہوا یہ کیا ترے شہرِ ماجرا خیز کو
نہ وہ ہوش ہے نہ خروش ہے ، نہ وہ سنگ ہیں نہ وہ سر رہے

ہے مقابلے کی حریف کو بہت آرزو مگر اس طرح
کہ ہمارے ہاتھ میں دَم کو بھی کوئی تیغ ہو ، نہ سپر رہے

ّعجیب ایک ہم نے ہُنر کیا ، وہ ہُنر بطورِ دِگر کیا
کہ سفر تھا دُور و دراز کا ، سو ہم آکے خود میں ٹھر رہے

یہاں رات دن کا جو رن پڑا تو گلہ یہ ہے کہ یہی ہوا
رہے شہر میں وہی معتبر جو اِدھر رہے نہ اُدھر رہے

ہیں عجیب سایے سے گام زن کہ فضاے شہر ہے پُرفتن
نہیں شام یہ رہ و رسم کی ، جو ہے گھر میں اپنے وہ گھر رہے

جون ایلیا

Leave a Comment

ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے

ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے
کہ ہٹ جاؤں میں اپنے درمیاں سے

یہاں جو ہے تنفس ہی میں گم ہے
پرندے اڑ رہے ہیں شاخ جاں سے

دریچہ باز ہے یادوں کا اور میں
ہوا سنتا ہوں پیڑوں کی زباں سے

زمانہ تھا وہ دل کی زندگی کا
تیری فرقت کے دن لاؤں کہاں سے

تھا اب تک معرکہ باہر کا درپیش
ابھی تو گھر بھی جانا ہے یہاں سے

فلاں سے تھی غزل بہتر فلاں کی
فلاں کے زخم اچھے تھےفلاں سے

خبر کیا دوں میں شہر رفتگاں کی
کوئی لوٹے بھی شہر رفتگاں سے

یہی انجام کیا تجھ کو ہوس تھا
کوئی پوچھے تو میر داستاں سے

جون ایلیا

Leave a Comment

اخلاص کی ثروت دے کردار کی رفعت دے

اخلاص کی ثروت دے کردار کی رفعت دے
گستاخ نگاہوں کو کچھ اشکِ ندامت دے

سرشار مجھے کر دے تو اپنی محبت سے
کچھ شوقِ اطاعت دے کچھ ذوقِ عبادت دے

شب وروز مرےگزریں تیری ثنا میں پیہم
کچھ ایسی عقیدت دے کچھ ایسی ارادت دے

پیمانۂ دل میرا لبریز ہو ایماں سے
کچھ ایسی بصارت دے کچھ ایسی حرارت دے

کچھ اشک ندامت کے پلکوں پہ سجا لوں میں
اے میری اجل مجھ کو بس اتنی سی مہلت دے

یہ میری طبیعت کیوں کج راہی پہ مائل ہے
صد شکرکروں تیرا گر مجھ کو ہدایت دے

چھٹکارا ملے دل کو لذّت سے گناہوں کی
کچھ ایسی طہارت دے کچھ ایسی طراوت دے

حرمت پہ ترے دِیں کی میں خود کو فنا کرلوں
کچھ ایسی جسارت دے کچھ ایسی شجاعت دے

سب تیری نوازش ہے ،ناچیز نہیں قابل
اب اور وثاقت دے، اب اور متانت دے

تو مجھ کو بچا لینارسوائی سے محشر کی
یہ میری گزارش ہے بس ایک ضمانت دے

ہے تیری رضا مجھ کو منظور میرے مولا
بس اپنی ہی چاہت دے ،کچھ اور نہ حاجت دے

Leave a Comment

خوشی ہوتی تو ہے لیکن بہت ساری نہیں ہوتی

خوشی ہوتی تو ہے لیکن بہت ساری نہیں ہوتی
ترے ملنے سے اب وہ کیفیت طاری نہیں ہوتی

یہ اہلِ دل کی محفل ہے یہاں بیٹھو تسلی سے
کسی سے بھی یہاں کوئی ریاکاری نہیں ہوتی

مجھے جرمِ طلب پر مفلسی مجبور کرتی ہے
مگر مجھ سے ہنر کے ساتھ غداری نہیں ہوتی

یہ لازم ہے غریبوں کے حقوق ان کو دیئے جائیں
فقط خیرات سے تو دور ناداری نہیں ہوتی

مکمل امتحانِ دوستی اِک بار ہی لے لو
کہ ہم سے نِت نئے پرچے کی تیاری نہیں ہوتی

تصنع ڈھل نہیں سکتی کبھی شعروں کے سانچے میں
سخنور کی کوئی بھی بات بازاری نہیں ہوتی

بہت بددل ہیں میری شاعری سے لاڈلے میرے
کہ غزلوں سے کھلونوں کی خریداری نہیں ہوتی

دیا ہے اس کو اہلِ شوق نے درجہ عبادت کا
وہ یاری نازؔ جس میں کوئی عیاری نہیں ہوتی

Leave a Comment

تجھے اظہار محبت سے اگر نفرت ہے

تجھے اظہار محبت سے اگر نفرت ہے
تو نے ہونٹوں کو لرزنے سے تو روکا ہوتا

بے نیازی سے مگر کانپتی آواز کے ساتھ
تو نے گھبرا کے مرا نام نہ پوچھا ہوتا

تیرے بس میں تھی اگر مشعل جذبات کی لو
تیرے رخسار میں گلزار نہ بھڑکا ہوتا

یوں تو مجھ سے ہوئیں صرف آب و ہوا کی باتیں
اپنے ٹوٹے ہوئے فقروں کو تو پرکھا ہوتا

یوں ہی بے وجہ ٹھٹکنے کی ضرورت کیا تھی
دم رخصت میں اگر یاد نہ آیا ہوتا

تیرا غماز بنا خود ترا انداز خرام
دل نہ سنبھلا تھا تو قدموں کو سنبھالا ہوتا

اپنے بدلے مری تصویر نظر آ جاتی
تو نے اس وقت اگر آئنہ دیکھا ہوتا

حوصلہ تجھ کو نہ تھا مجھ سے جدا ہونے کا
ورنہ کاجل تری آنکھوں میں نہ پھیلا ہوتا

احمد ندیم قاسمی

Leave a Comment

دم بہ دم گردشِ دوراں کا گُھمایا ہُوا شخص

دم بہ دم گردشِ دوراں کا گُھمایا ہُوا شخص
ایک دِن حشر اُٹھاتا ہے گرایا ہوا شخص

میں تو خود پر بھی کفایت سے اُسے خرچ کروں
وہ ہے مہنگائی میں مُشکل سے کمایا ہوا شخص

یاد آتا ہے تو آتا ہی چلا جاتا ہے
کارِ بیکارِ زمانہ میں بُھلایا ہوا شخص

دشتِ بے آب میں آواز نہ الفاظ کہِیں
ہر طرف دھوپ تھی پھر پیڑ کا سایہ ہوا شخص

جب ضرورت تھی،اُسی وقت مُجھے کیوں نہ ملا
بس اِسی ضد میں گنوا بیٹھوں گا پایا ہُوا شخص

کیا عجب خوانِ مُقدّر ہی اُٹھا کر پھینکے
ڈانٹ کرخوانِ مُقدّر سے اُٹھایا ہُوا شخص

اپنی شورِیدہ مِزاجی کا کروں کیا “نیّر”
روٹھ کر جا بھی چُکا مان کے آیا ہُوا شخص

Leave a Comment
%d bloggers like this: