آنکھوں سے ہی بتلائیں گے ! جس کا قصّہ پوچھے گا
ہم تو چُپ کے پِیر ہیں اب تُو ہم سے کیا کیا پوچھے گا ؟
رَگ رَگ اندر عشق ہے کتنا ؟ سب پیشانی جانتی ہے
کچی نیّت باندھنے والو ! تم کو سجدہ پوچھے گا
سرخ آنکھوں پر بات تو ہو گی! دیکھو یار زمانہ ہے
جب بتلا نہیں سکتی ہو تو ! مت رو ! ورنہ پوچھے گا
اتنی پردہ دار اذیت کیوں چپ رہ کر کاٹتے ہو ؟
چاہے مجھ سے درد نہ پوچھے لیکن پردہ پوچھے گا
میں بھی خود ہی اک دن اپنا نام اور شکل گنوا دوں گا
تُو بھی کون سا ان گلیوں میں آ کر میرا پوچھے گا
آپ ملے تو اس ملنے میں ہم یہ بات ہی بھول گئے
اک دن آپ کا ہجر بھی ہم کو اچھا خاصا پوچھے گا
ہم سے ہمارا چھوڑ کے اِس کا، اُس کا، سب کا پوچھ لیا
سوچ رہے ہیں اب وہ ہم سے جانے کس کا پوچھے گا
چھوڑ دِلا ! تُو اِن لوگوں کی باتوں سے بے چین نہ ہو
اِن کی آگے خیر نہیں ہے ! اِن کو اللہ پوچھے گا
جس دن آپ نے اس دنیا سے دور کہیں جا بسنا ہے
زین اسی دن سکھ بھی آپ کے گھر کا رستہ پوچھے گا
زین شکیل
Leave a Comment