نار نمرود کو کیا گلزار
دوست کو یوں بچا لیا تو نے
داغ کو کون دینے والا تھا
جو دیا اے خدا دیا تو نے
داغ دہلوی
Leave a Commentنار نمرود کو کیا گلزار
دوست کو یوں بچا لیا تو نے
داغ کو کون دینے والا تھا
جو دیا اے خدا دیا تو نے
داغ دہلوی
Leave a Commentلاکھ دوری ہو ۔۔۔۔۔۔۔مگر عہد نبھاتے رہنا
جب بھی بارش ہو ۔۔۔میرا سوگ مناتے رہنا
تجھ کو معلوم ہے فرحت کی یہ پاگل پن ہے
دور جاتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں کو بلاتے رہنا
فرحت عباس شاہ
Leave a Commentوہی آبلے ہیں وہی جلن کوئ سوز دل میں کمی نہیں
جو لگا کر آگ گئے ہو تم وہ لگی ہوئ ہے بجھی نہیں۔
شکیل بدایونی
Leave a Commentوہ اپنے حُسن کا دیوانہ بن جائے تو کیا کیجئے
وجودِ شمع خود پروانہ بن جائے تو کیا کیجئے
جسے ہو شوق پُرنم شوق سے اپنا بنانے کا
ہمیں اپنا کے وہ بیگانہ بن جائے تو کیا کیجئے
حقیقت میں برائے نام تھا میرا جنوں لیکن
ذرا سی بات کا افسانہ بن جائے تو کیا کیجئے
ہر اک چہرہ نظر آنے لگے جب یار کا چہرہ
ہر اک چہرہ رُخِ جانانہ بن جائے تو کیا کیجئے
مُیسر سُکھ نہ ہو جب باوجودِ کوشش پیہم
دُکھ اپنا ہمنوا روزانہ بن جائے تو کیا کیجئے
پلا کر پیر میخانہ بنا سکتا ہے یہ مانا
مگر جو بِن پئے مستانہ بن جائے تو کیا کیجئے
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
خموشی سے ادا ہو رسمِ دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
وفا، اخلاص، قربانی،مرو ّت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم
سنا دیں عصمتِ مریم کا قصّہ؟
پر اب اس باب کو وا کیوں کریں ہم
زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے
بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کری ہم
ہماری ہی تمنّا کیوں کرو تم
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم
کیا تھا عہد جب لحموں میں ہم نے
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم
اُٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں
فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم
جو اک نسل فرومایہ کو پہنچے
وہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم
نہیں دُنیا کو جب پرواہ ہماری
تو پھر دُنیا کی پرواہ کیوں کریں ہم
برہنہ ہیں سرِبازار تو کیا
بھلا اندھوں سے پردا کیوں کریں ہم
ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی
سو خود پر بھی بھروسہ کیوں کریں ہم
پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں
زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم
یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم
جون ایلیا
Leave a Comment دل سوز سے خالی ہے ، نگہ پاک نہيں ہے
پھر اس ميں عجب کيا کہ تو بے باک نہيں ہے
ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک ميں پنہاں
غافل! تو نرا صاحب ادراک نہيں ہے
وہ آنکھ کہ ہے سرم ہ افرنگ سے روشن
پرکار و سخن ساز ہے ، نم ناک نہيں ہے
کيا صوفی و ملا کو خبر ميرے جنوں کی
ان کا سر دامن بھی ابھی چاک نہيں ہے
کب تک رہے محکومی انجم ميں مری خاک
يا ميں نہيں ، يا گردش افلاک نہيں ہے
بجلی ہوں ، نظر کوہ و بياباں پہ ہے مری
ميرے ليے شاياں خس و خاشاک نہيں ہے
عالم ہے فقط مومن جاں باز کی ميراث
مومن نہيں جو صاحب لولاک نہيں ہے
راہ گذر کا چراغ ھیں ، ھم لوگ
آپ اپنا سراغ ھیں ، ھم لوگ
جل رھے ھیں ، نہ بجھ رھے ھیں
کسی کے سینے کا داغ ھیں ، ھم لوگ؟؟
خود تہی ھے ، مگر پِلاتے ھیں
میکدے کا ایاغ ھیں ، ھم لوگ
دشمنوں کو بھی ، دوست کہتے ھیں
کتنے عالی دماغ ھیں ، ھم لوگ
چشم تحقیر سے نہ دیکھ
دامنوں کا فراغ ھیں ، ھم لوگ
ایک جھونکا نصیب ھے ، ساغر
اُس گلی کا چراغ ھیں ، ھم لوگ
غم کے مجرم، خوشی کے مجرم ہیں
لوگ اب زندگی کے مجرم ہیں
اور کوئی گناہ یاد نہیں
سجدۂ بے خودی کے مجرم ہیں
استغاثہ ہے راہ و منزل
راہزن رہبری کے مجرم ہیں
مے کدے میں یہ شور کیسا ہے
بادہ کش بندگی کے مجرم ہیں
دشمنی آپ کی عنایت ہے
ہم فقط دوستی کے مجرم ہیں
ہم فقیروں کی صورتوں پہ نہ جا
خدمتِ آدمی کے مجرم ہیں
کچھ غزالانِ آگہی ساغر
نغمہ و شاعری کے مجرم ہیں