کسی وبا میں خدا ہم کو مبتلا کرے گا
ہم ایسے لوگ کہاں خودکشی کے قابل ہیں
لڑائی ہم کو وراثت میں دی گئی ہے حضور
ہم اہل جنگ کہاں شاعری کے قابل ہیں
کسی وبا میں خدا ہم کو مبتلا کرے گا
ہم ایسے لوگ کہاں خودکشی کے قابل ہیں
لڑائی ہم کو وراثت میں دی گئی ہے حضور
ہم اہل جنگ کہاں شاعری کے قابل ہیں
ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺭﻧﮓ ﺗﻮ ﻟﻮﮞ ﺗﯿﺮﮮ ﺭﻧﮓ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ
ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﻣﺮﯼ ﺫﺍﺕ ﭘﺮ ﭨﮭﮩﺮﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ
ﮐﺒﯿﺮ، ﺟﺎﮞ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﻋﺰﯾﺰ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﯽ
ﭘﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﻢ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﭨﮭﮩﺮﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ
ﮐﺒﯿﺮ ﺍﻃﮩﺮ
Leave a Commentناں میں پُورے کپڑے پاواں
مُنڈیاں ورگے وال کٹاواں
بِنا نکاح دے خَصم بناواں
شرم حیاء میں رکھاں فرضی
میرا جِسم تے میری مرضی
دِن دیہاڑے موجاں لُٹاں
بچہ جَم کے رُوڑی سُٹاں
شرح دے بھانویں جُنڈے پُٹاں
میں نی من دی کِسے دی عرضی
میرا جِسم تے میری مرضی
مغرب دی تہزیب چلاویں
گندے مندے نعرے لاویں
پی شراباں گھر نوں آویں
نئیں چلنی ایتھے مرضی ورضی
میرا جسم تے میری مرضی
لاج دی بیڑی کانوں روڑھیں؟
بے حیائیاں کیوں نا چھوڑیں؟
دوزخ ول کیوں آپے ای دوڑیں؟
کاہدی تینوں ایہہ خودغرضی؟
دسدا ای مِرزا حُکم ربانی
ناں کر نبی دی نا فرمانی
صدا نی رہنا حُسن جوانی
ہُن کر لے توبہ چَھڈ لاغرضی
رب دا حُکم تے رب دی مرضی
مغرور ہی سہی، مجھے اچھا بہت لگا
وہ اجنبی تو تھا مگر اپنا بہت لگا
روٹھا ہوا تھا ہنس تو پڑا مجھ کو دیکھ کر
مجھ کو تو اس قدر بھی دلاسا بہت لگا
صحرا میں جی رہا تھا جو دریا دلی کے ساتھ
دیکھا جو غور سے تو وہ پیاسا بہت لگا
وہ جس کے دم قدم سے تھیں بستی کی رونقیں
بستی اجڑ گئی تو اکیلا بہت لگا
لپٹا ہوا کہر میں ہو جیسے خزاں کا چاند
میلے لباس میں بھی وہ پیارا بہت لگا
ریشم پہن کے بھی مری قیمت نہ بڑھ سکی
کھدر بھی اس کے جسم پہ مہنگا بہت لگا
محسن جب آئینے پہ میری سانس جم گئی
مجھ کو خود اپنا عکس بھی دھندلا بہت لگا
( محسن نقوی )
Leave a Commentبے داد و جور و لطف و ترحم سے کیا غرض
تم کو غرض نہیں، تو ہمیں تم سے کیا غرض
کیوں ہم شبِ فراق میں تارے گنا کریں
ہم کو شمارِ اختر و انجم سے کیا غرض
کوئی ہنسا کرے، تو بلا سے ہنسا کرے
کیوں دل جلائیں، برقِ تبسم سے کیا غرض
لیتے ہیں جاں نثار کوئی منتِ مسیح
جو ہو شہیدِ عشق اسے قم سے کیا غرض
جو خاکسارِ عشق ہیں ملتے ہیں خاک میں
اہل زمیں کو چرخِ چہارم سے کیا غرض
دل طرزِ انجمن ہی سے بیزار ہوگیا
مطلب ہمیں شراب سے کیا، خم سے کیا غرض
کیوں بزمِ عیش چھوڑ کے بزمِ عزا میں آئیں
ان کو ہمارے پھولوں سے، چہلم سے کیا غرض
روزِ ازل سے پاک ہیں رندانِ بے ریا
ان کو وضو سے اور تیمم سے کیا غرض
شیدائیوں کو عزتِ دنیا سے ننگ ہے
دیوانے کو ملامتِ مردم سے کیا غرض
معشوق سے امیدِ کرم؟ داغؔ خیر ہے
اس بندۂ خدا کو ترحم سے کیا غرض
داغؔ دہلوی
Leave a Commentجو تیرے ساتھ رہتے ہوئے سوگوار ہو
لعنت ہو ایسے شخص پہ اور بے شمار ہو
دن رات بہہ رہی ہے توقف کیے بغیر
جیسے یہ آنکھ، آنکھ نہ ہو آبشار ہو
اب اتنی دیر بھی نہ لگا یہ نہ ہو کہیں
تُو آ چکا ہو اور تیرا انتظار ہو
میں پھول ہوں تو پھر ترے بالوں میں کیوں نہیں
تُو تِیر ہے تو میرے کلیجے کے پار ہو
کب تک کسی سے کوئی محبت سے پیش آئے
اُس کو مرے رویے پہ دکھ ہے تو یار ہو
اک آستیں چڑھانے کی عادت کو چھوڑ کر
حافی تم آدمی تو بہت شاندار ہو
تہذیب حافی
Leave a Commentاُس کی زباں میں اتنا اثر ہے کہ نصف شب
وہ روشنی کی بات کرے اور دیا جلے
تم چاہتے ہو تم سے بچھڑ کے بھی خوش رہوں
یعنی ہوا بھی چلتی رہے اور دیا جلے
تہذیب حافی
Leave a Commentعجیب دن ہیں مرے اور عجب اداسی ہے
ترے بغیر مرے یار سب اداسی ہے
مجھے نواز کوئی ہجر سے بھرا ہوا عشق
میں وہ فقیر ہوں جس کی طلب اداسی ہے
کبھی کبھی تو الف لام میم کھلتا ہے
کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے رب اداسی ہے
ہماری مستی الستی ہمارا سوگ بہشت
ہمارے ہونے کا شاید سبب اداسی ہے
اک اور لہر بھی ہوتی ہے لہر کے اندر
اسی لیے تو میاں زیر لب اداسی ہے
تری کمی کا بھی اب دن منائیں گے ہم لوگ
اور اس کا نام رکھیں گے غضب اداسی ہے
قہوہ خانے میں دُھواں بن کے سمائے ہوئے لوگ
جانے کس دُھن میں سلگتے ہیں بجھائے ہوئے لوگ
نام تو نام مجھے شکل بھی اب یاد نہیں
ہائے وہ لوگ، وہ اعصاب پہ چھائے ہوئے لوگ
عباس تابش
Leave a Comment
اُس کی زباں میں اتنا اثر ہے کہ نصف شب
وہ روشنی کی بات کرے اور دیا جلے
تم چاہتے ہو تم سے بچھڑ کے بھی خوش رہوں
یعنی ہوا بھی چلتی رہے اور دیا جلے
تہذیب حافی
Leave a Comment