Skip to content

Month: February 2020

چاہا ہے تجھے میں نے تری ذات سے ہٹ کر

چاہا ہے تجھے میں نے تری ذات سے ہٹ کر
اس بار کھڑا ہوں میں روایات سے ہٹ کر

تم عشق کے قصے مجھے آکر نہ سناؤ
دنیا میں نہیں کچھ بھی مفادات سے ہٹ کر

جس شخص کو پوجا تھا اُسے مانگ رہا ہوں
میں مانگ رہا ہوں اُسے اوقات سے ہٹ کر

ہاں سوچ رہا ہوں میں تجھے اپنا بنا لوں
ہاں سوچ رہا ہوں میں خیالات سے ہٹ کر

واعظ نے کہا “عقل کہاں پر ہے تمھاری”
میں نے یہ کہا “خلد کے باغات سے ہٹ کر”

غم یہ ہے کہ میں اپنے قبیلے کا بڑا ہوں
چلنا ہی پڑے گا مجھے سقراط سے ہٹ کر

رہنا ہے مجھے اُس کی تمنا سے بہت دور
رہنا ہے مجھے ہجر کے حالات سے ہٹ کر

شہزاد مہدی

Leave a Comment

زندگی مجھ سے صلح چاہتی ہے

زندگی مجھ سے
صلح چاہتی ہے
زخموں کی اپنے
دوا چاہتی ہے

گرہوں کی ماری
یہ دودهوں جلی
کمبخت مجھ سے
نکاح چاہتی ہے

چنتا سے خائف
یہ الہڑ ندیدہ
حصے کی اپنے
ردا چاہتی ہے

پیری کی دشمن
یہ نو عمر لونڈی
جوانی کیا جی بهر
نشہ چاہتی ہے

الفت کی موجب
یہ دل کش حسینہ
ہر سن سے نورس
ادا چاہتی ہے

تنفس کی دیوی
یہ سینوں کی رضیہ
ان آتش کدوں سے
ضیا چاہتی ہے

بدن سے سفیر_بدن
بن کے اٹهے
دہر میں یہ ایسا
دیا چاہتی ہے

یہ حوا پہ اترے
تو سمجهو قیامت
سبهو چشم اس سے
پناہ چاہتی ہے

تیرے روبرو اس
کے نوٹنکی ناٹک
شفا بخش ہو تم
شفا چاہتی ہے

یہ سوچوں کے کنبہ
میں پہلوٹهی بهاوج
دلوں کے ٹهکانے
تباہ چاہتی ہے

یہ زرتار_آنچل یہ
لٹهے کی خلوت
پهولوں کی خود پہ
قبا چاہتی ہے

رزب یہ حرافہ یہ
تیلی کی رسیا
بشر سے لحد تک
وفا چاہتی ہے

Leave a Comment

آپ کے سینے میں دل نہیں نہ سہی

آپ کے سینے میں دل نہیں نہ سہی
آپ کی ذات سے دوستی ہی سہی
آپ انگلی اٹھا کے رہیں سرخرو
ہم سے ہو جس قدر دشمنی ہی سہی

ہم تو خصلت میں ہیں دم بدم شیفتہ
آپ فطرت میں ہیں فتنہء دو جہاں
ہم تو ہنسنے میں بھی زرد پرور رہیں
آپ پردے میں بھی آتشی ہی سہی

یاں ثواب و گناہ دونوں فاسق ہوئے
تاب و تابش کی تعظیم گالی ہوئی
ہم وہ کاہن ہیں بھولے جو تجسیم_بت
ہم کو پوجا کی مد میں کمی ہی سہی

یونہی تا دیر ہم بھی ذرا دیکھ لیں
رات کی اس سیاہی کو جگنو کیے
اپنی بینائی تو قرض میں کھو گئی
آپ کی راہ میں روشنی ہی سہی

ہم بدن میں دکان_زخم کھول کر
خود ہی تکلیف کا بھید بھاؤ کریں
آپ کو کیا پتا ان کی قیمت ہے کیا
آپ کی بات میں سادگی ہی سہی

اپنی عرض_سخن کی تلافی نہیں
اپنی حق گوئی کی کوئی معافی نہیں
ہم کو بدلے میں تازہ کلام _رزب
آپ کی بزم سے رخصتی ہی سہی

Leave a Comment

ﺍﮮ ﯾﺎﺩِ ﯾﺎﺭ

ﺍﮮ ﯾﺎﺩِ ﯾﺎﺭ ، تجھ ﺳﮯ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﯿﺎ ﺷﮑﺎیتیں ؟؟
ﺍﮮ ﺩﺭﺩِ ھﺠﺮ ، ھﻢ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﮯ ھﻮ ﮔﺌﮯ
سمجھا رھے تھے مجھ کو ، سبھی ناصحانِ شہر
پھر رفتہ رفتہ ، خود اُسی کافر کے ھو گئے​

Leave a Comment

غیر کے نام سے پیغامِ وصال اچھا ہے

غیر کے نام سے پیغامِ وصال اچھا ہے
چھیڑ کا جس میں مزا ہو وہ سوال اچھا ہے
کبھی کہتا ہوں محبّت کا مآل اچھا ہے
کبھی کہتا ہوں جو اب ہے وہی حال اچھا ہے
یہ بھی کہتے ہو کہ بے چین کیا کس نے تجھے
یہ بھی کہتے ہو مرا حسن و جمال اچھا ہے
دل تو ہم دیں گے مگر پیشتر اتنا کہہ دو
ہجر اچھا ہے تمہارا کہ وصال اچھا ہے
یہ تو بہتر ہے کہ دنیا میں ہو عقبیٰ کا خیال
کچھ تو عقبیٰ میں دنیا کا مال اچھا ہے
یہی دولت کا مزا ہے کے اڑیں گل چھرے
ہاتھ آتے ہی جو اڑ جائے وہ مال اچھا ہے
صلح دشمن سے بھی کر لیں گے تری خاطر سے
جس طرح سے ہو غرض رفعِ ملال اچھا ہے
اک دکاں میں ابھی رکھ آئے ہیں ہم اپنا دل
دور سے سب کو بتاتے ہیں وہ مال اچھا ہے
کیا وہ غارت گر دیں حشر سے اڑ جائے گا
ہر مسلماں کا سنتے ہیں مآل اچھا ہے
روزِ بد سے نہیں تا عمر محبّت میں نجات
موت سے سال میں آئے وہی سال اچھا ہے
اپنی تعریف سے چڑھتے ہو اگر جانے دو
چشمِ بد دور ہمارا ہی جمال اچھا ہے
لوگ کہتے ہیں بھلائی کا زمانہ نہ رہا
یہ بھی کہہ دیں کہ برائی کا مآل اچھا ہے
رقمِ شوق کی تاثیر اڑنا بہتر
طائرِ نامہ رسا بے پر و بال اچھا ہے
ایسے بیمار کی افسوس دوا ہو کیونکر
ابھی دم بھر میں برا ہے ابھی حال اچھا ہے
دیکھنے والوں کی حالت نہیں دیکھی جاتی
جو نہ دیکھے وہی مشتاقِ جمال اچھا ہے
یا دکھا دو مجھے تم پاؤں کا ناخن اپنا
یا یہ کہہ دو مرے ناخن سے ہلال اچھا ہے
تم نہیں اور سہی دل کے طلب گار بہت
سو خریدار ہیں موجود جو مال اچھا ہے
دل میں تو خوش ہیں تسلی کو مری کہتے ہیں
آپ مرنے کے نہیں آپ کا حال اچھا ہے
باغِ عالم میں کوئی خاک پھلے پھولے گا
برق گرتی ہے اسی پر جو نہال اچھا ہے
عرصہ حشر میں سب ہو گئے خواہاں اس کے
لوگ کہتے ہیں اشاروں سے یہ مال اچھا ہے
ہم سے پوچھے کوئی دنیا میں ہے کیا شے اچھی
رنج اچھا ہے غم اچھا ہے ملال اچھا ہے
آپ پچھتاہیں نہیں جور سے توبہ نہ کریں
آپ گھبراہیں نہیں داغؔ کا حال اچھا ہے
داغؔ دہلوی

Leave a Comment

زخم اکتا کے کئی بار ہیں رونا بھولے

زخم اکتا کے کئی بار ہیں رونا بھولے
دنیا، دنیا ہے یہ نشتر نہ چبھونا بھولے

تیرنا ہم کو نہیں آئے گا جب یہ طے ہے
آو منت کریں دریا سے ڈبونا بھولے

ایسے مصروف ہوئے آج سبھی گھر کے مکیں
جہاں رکھا تھا مجھے گھر کا وہ کونا بھولے

ایک سے ایک لبھانے کو ہے بازار میں شے
پھر کوئی کیسے نہیں ٹوٹا کھلونا بھولے

تیرے انداز حسیں، دنیا کہاں لے آئے
تیرے بھی ہو نہ سکے، اپنا بھی ہونا بھولے

گر کبھی چاہا کوئی بات بنا کر لکھنا
لفظ باغی ہوئے شعروں میں سمونا بھولے

توڑا جب جب ہے زمانے نے کوئی خواب مرا
ہم نیا خواب نہ آنکھوں میں پرونا بھولے

یاد جب آتے ہیں وہ لوگ پرانے ابرک
آنکھ ظالم مرا دامن نہ بھگونا بھولے

اتباف ابرک

Leave a Comment

اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے

اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے
اک نظر میری طرف دیکھ تیرا جاتا کیا ہے

میری رسوائی میں تو بھی ہے برابر کا شریک
میرے قصے میرے یاروں کو سناتا کیا ہے

پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مجھ کو
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے

سفرِ شوق میں کیوں کانپتے ہیں پاؤں تیرے
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ اٹھاتا کیا ہے

عمر بھر اپنے گریباں سے الجھنے والے
تو مجھے میرے سائے سے ڈراتا کیا ہے

مر گئے پیاس کے مارے تو اٹھا ابرِ کرم
بجھ گئی بزم تو اب شمع جلاتا کیا ہے

میں تیرا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا
دیکھ کر مجھ کو تیرے ذہن میں آتا کیا ہے

Leave a Comment

کس کی تحویل میں تھے کس کے حوالے ھوئے لوگ

کس کی تحویل میں تھے کس کے حوالے ھوئے لوگ
چشمِ گریہ میں رھے دل سے نکالے ھوئے لوگ

کب سے راھوں میں تری گرد بنے بیٹھے ھیں
تجھ سے ملنے کیلئے وقت کو ٹالے ھوئے لوگ

کہیں آنکھوں سے چھلکنے نہیں دیتے تجھ کو
کیسے پھرتے ھیں ترے خواب سنبھالے ھوئے لوگ

دامنِ صبح میں گرتے ھوئے تاروں کی طرح
جل رھے ھیں تری قربت کے اجالے ھوئے لوگ

یا تجھے رکھتے ھیں یا پھر تیری خواھش دل میں
ایسے دنیا میں کہاں چاھنے والے ھوئے لوگ

Leave a Comment
%d bloggers like this: