Skip to content

Month: January 2020

وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے

وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے
وہ بھی چڑھتے ہوئے سورج کے پجاری نکلے

سب کے ہونٹوں پہ مرے بعد ہیں باتیں میری
میرے دشمن مرے لفظوں کے بھکاری نکلے

اک جنازہ اٹھا مقتل میں عجب شان کے ساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے

ہم کو ہر دور کی گردش نے سلامی دی ہے
ہم وہ پتھر ہیں جو ہر دور میں بھاری نکلے

عکس کوئی ہو خد و خال تمہارے دیکھوں
بزم کوئی ہو مگر بات تمہاری نکلے

اپنے دشمن سے میں بے وجہ خفا تھا محسنؔ
میرے قاتل تو مرے اپنے حواری نکلے

Leave a Comment

کچھ دیر کو تجھ سے کٹ گئی تھی

کچھ دیر کو تجھ سے کٹ گئی تھی
محور سے زمین ہٹ گئی تھی

تجھ کو بھی نہ مل سکی مکمل
میں ‌اتنے دکھوں ‌میں بٹ گئی تھی

شاید کہ ہمیں سنوار دیتی
جو شب آ کر پلٹ گئی تھی

رستہ تھا وہی پہ بِن تمہارے
میں گرد میں کیسی اَٹ گئی تھی

پت جھڑ کی گھڑی تھی اور شجر تھے
اک بیل عجب لپٹ گئی تھی

پروین شاکر.

Leave a Comment

سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اُس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے ربط ھے اُس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے دن میں اُسے تتلیاں ستاتی ہیں
سُنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُسے بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ھُنر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے درد کی گاہگ ہے چشمِ ناز اُس کی
سو ہم بھی اُس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے حشر ہیں اُس کی غزال سی آنکھیں
سُنا ہے اُس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کی سیاہ چشمگیں قیامت ہے
سو اُس کو سُرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بامِ فلک سے اُتر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اُس کی
سُنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پر الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کے شبستاں سے مُتصل ہے بہشت
مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اُس کی
جو سادہ دل ہیں اُسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ اِمکاں میں
پلنگ زاویے اُس کی کمر کے دیکھتے ہیں
رُکے تو گردشیں اُس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اُس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
بس اِک نگاہ سے لُٹتا ہے قافلہ دل کا
سو راہروانِ تمنّا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
اب اُس کے شہر میں ٹھہریں یا کُوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

Leave a Comment

عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں

عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں
رات بستر پہ میں سوتا نہیں مر جاتا ہوں

اکثر اوقات بھرے شہر کے سناٹے میں
اس قدر زور سے ہنستا ہوں کہ ڈر جاتا ہوں

مجھ سے پوچھے تو سہی آئینہ خانہ میرا
خال و خد لے کے میں ہم راہ کدھر جاتا ہوں

دل ٹھہر جاتا ہے بھولی ہوئی منزل میں کہیں
میں کسی دوسرے رستے سے گزر جاتا ہوں

سہما رہتا ہوں بہت حلقۂ احباب میں میں
چار دیوار میں آتے ہی بکھر جاتا ہوں

میرے آنے کی خبر صرف دیا رکھتا ہے
میں ہواؤں کی طرح ہو کے گزر جاتا ہوں

میں نے جو اپنے خلاف آپ گواہی دی ہے
وہ ترے حق میں نہیں ہے تو مکر جاتا ہوں

Leave a Comment
%d bloggers like this: