Skip to content

Month: January 2020

پرائی آگ پہ روٹی نہیں بناؤں گا

پرائی آگ پہ روٹی نہیں بناؤں گا
میں بھیگ جاؤں گا چھتری نہیں بناؤں گا

اگر خدا نے بنانے کا اختیار دیا
علم بناؤں گا برچھی نہیں بناؤں گا

فریب دے کے ترا جسم جیت لوں لیکن
میں پیڑ کاٹ کے کشتی نہیں بناؤں گا

گلی سے کوئی بھی گزرے تو چونک اٹھتا ہوں
نئے مکان میں کھڑکی نہیں بناؤں گا

میں دشمنوں سے اگر جنگ جیت بھی جاؤں
تو ان کی عورتیں قیدی نہیں بناؤں گا

تمہیں پتا تو چلے بے زبان چیز کا دکھ
میں اب چراغ کی لو ہی نہیں بناؤں گا

میں ایک فلم بناؤں گا اپنے ثروتؔ پر
اور اس میں ریل کی پٹری نہیں بناؤں گا

Leave a Comment

تیرا چپ رہنا مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا

تیرا چپ رہنا مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا
اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا

یوں نہیں ہے کہ فقط میں ہی اسے چاہتا ہوں
جو بھی اس پیڑ کی چھاؤں میں گیا بیٹھ گیا

اتنا میٹھا تھا وہ غصے بھرا لہجہ مت پوچھ
اس نے جس کو بھی جانے کا کہا بیٹھ گیا

اپنا لڑنا بھی محبت ہے تمہیں علم نہیں
چیختی تم رہی اور میرا گلا بیٹھ گیا

اس کی مرضی وہ جسے پاس بٹھا لے اپنے
اس پہ کیا لڑنا فلاں میری جگہ بیٹھ گیا

بات دریاؤں کی سورج کی نہ تیری ہے یہاں
دو قدم جو بھی مرے ساتھ چلا بیٹھ گیا

بزم جاناں میں نشستیں نہیں ہوتیں مخصوص
جو بھی اک بار جہاں بیٹھ گیا بیٹھ گیا

Leave a Comment

عہدِ گم گشتہ کی تصویر دکھاتی کیوں ہو

عہدِ گم گشتہ کی تصویر دکھاتی کیوں ہو؟
ایک آوارۂ منزل کو ستاتی کیوں ہو؟

وہ حسیں عہد جو شرمندۂ ایفا نہ ہوا
اس حسیں عہد کا مفہوم جتاتی کیوں ہو

زندگی شعلۂ بے باک بنا لو اپنی
خود کو خاکسترِ خاموش بناتی کیوں ہو

میں تصوّف کے مراحل کا نہیں ہوں قائل
میری تصویر پہ تم پھول چڑھاتی کیوں ہو؟

کون کہتا ہے کہ آہیں ہیں مصائب کا علاج
جان کو اپنی عبث روگ لگاتی کیوں ہو؟

ایک سرکش سے محبت کی تمنّا رکھ کر
خود کو آئین کے پھندوں میں پھنساتی کیوں ہو

میں سمجھتا ہوں تقدّس کو تمدّن کا فریب!
تم رسومات کو ایمان بناتی کیوں ہو؟

جب تمہیں مجھ سے زیادہ ہے زمانے کا خیال
پھر مری یاد میں یوں اشک بہاتی کیوں ہو؟

تم میں ہمّت ہے تو دنیا سے بغاوت کر دو
ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو ؟

Leave a Comment

اب کے سفر ہی اور تھا، اور ہی کچھ سراب تھے

اب کے سفر ہی اور تھا، اور ہی کچھ سراب تھے
دشتِ طلب میں جا بجا، سنگِ گرانِ خواب تھے

حشر کے دن کا غلغلہ، شہر کے بام و دَر میں تھا
نگلے ہوئے سوال تھے، اُگلے ہوئے جواب تھے

اب کے برس بہار کی، رُت بھی تھی اِنتظار کی
لہجوں میں سیلِ درد تھا، آنکھوں میں اضطراب تھے

خوابوں کے چاند ڈھل گئے تاروں کے دم نکل گئے
پھولوں کے ہاتھ جل گئے، کیسے یہ آفتاب تھے!

سیل کی رہگزر ہوئے، ہونٹ نہ پھر بھی تر ہوئے
کیسی عجیب پیاس تھی، کیسے عجب سحاب تھے!

عمر اسی تضاد میں، رزقِ غبار ہو گئی
جسم تھا اور عذاب تھے، آنکھیں تھیں اور خواب تھے

صبح ہوئی تو شہر کے، شور میں یوں بِکھر گئے
جیسے وہ آدمی نہ تھے، نقش و نگارِ آب تھے

آنکھوں میں خون بھر گئے، رستوں میں ہی بِکھر گئے
آنے سے قبل مر گئے، ایسے بھی انقلاب تھے

ساتھ وہ ایک رات کا، چشم زدن کی بات تھا
پھر نہ وہ التفات تھا، پھر نہ وہ اجتناب تھے

ربط کی بات اور ہے، ضبط کی بات اور ہے
یہ جو فشارِ خاک ہے، اِس میں کبھی گلاب تھے

اَبر برس کے کھُل گئے، جی کے غبار دھُل گئے
آنکھ میں رُو نما ہوئے، شہر جو زیرِ آب تھے

درد کی رہگزار میں، چلتے تو کِس خمار میں
چشم کہ بے نگاہ تھی، ہونٹ کہ بے خطاب تھے

Leave a Comment

اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں

اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں
اب شوق کا کچھ اور ہی عالم ہے مری جاں

اب تذکرہء خندۂ گل بار ہے جی پر
جاں وقفِ غمِ گریۂ شبنم ہے مری جاں

رخ پر ترے بکھری ہوئی یہ زلف سیہ تاب
تصویر پریشانیٔ عالم ہے مری جاں

یہ کیا کہ تجھے بھی ہے زمانے سے شکایت
یہ کیا کہ تری آنکھ بھی پرنم ہے مری جاں

ہم سادہ دلوں پر یہ شبِ غم کا تسلط
مایوس نہ ہو اور کوئی دَم ہے مری جاں

یہ تیری توجہ کا ہے اعجاز کہ مجھ سے
ہر شخص ترے شہر کا برہم ہے مری جاں

اے نزہتِ مہتاب ترا غم ہے مری زیست
اے نازشِ خورشید ترا غم ہے مری جاں

Leave a Comment

نہیں” مطلب نہیں اُس کی نہیں کا”

نہیں” مطلب نہیں اُس کی نہیں کا”
یہ دل سمجھا نہیں پاگل کہیں کا

ستارے ماند ہیں سب تیرے ہوتے
کہ تُو ہے چاند، وہ بھی چودھویں کا

میں روتا ہوں تو روتے ہیں در و بام
مکاں بھی دکھ سمجھتا ہے مکیں کا

یہ کیسے موڑ پر چھوڑا ہے تُو نے
مجھے چھوڑا نہیں تُو نے کہیں کا

کئے سجدے کچھ اتنے اُس کے در پر
نشاں سا پڑ گیا میری جبیں کا

لباسِ سُرخ میں ملبوس لڑکی
چھلکتا جام حُسنِ احمریں کا

مری گردن تک آ پہنچا تو جانا
مرا تو ہاتھ ہے سانپ آستیں کا

نہ جانے بات کیا تھی اُس گلی میں
کہ ہو کر رہ گیا فارس وہیں کا

رحمان فارس

Leave a Comment

آسماں سے بھی ہم اتارے گئے

آسماں سے بھی ہم اتارے گئے
اور زمیں پر بھی کب سنوارے گئے
جیسے کٹتی ہیں ہجر کی راتیں
زیست ہم تجھ سے یوں گزارے گئے
بے رخی تک نہ بات پہنچی تھی
ہم عنایات میں ہی مارے گئے
جن کی خاطر پچھاڑا طوفاں کو
سب سے پہلے وہی کنارے گئے
ہم نے مڑ کر تمہی کو ڈھونڈا ہے
جب جہاں جس گھڑی پکارے گئے
نہ جگہ تھی ہماری جس دل میں
ہم اسی دل میں کیوں اتارے گئے
بولو وہ کیا کریں بصارت کا
جن کی آنکھوں کے سب نظارے گئے
جینا آسان ہو گیا تیرا
جب سے ابرک ترے سہارے گئے

اتباف ابرک

Leave a Comment

غرورِنار میرے پاؤں میں پڑا ہوا تھا

غرورِنار میرے پاؤں میں پڑا ہوا تھا
میں خاک تھا سو میرا مرتبہ بڑا ہوا تھا

میں چاہتا تھا بتا دوں کہ دیوتا نہیں مَیں
مگر وہ حُسن مِرے نور سے ڈرا ہوا تھا

میں چاہتا تو زبانیں خاموش کر دیتا
مگر میں چپ تھا تیرے حکم پر رکا ہوا تھا

رحیم دن تھے،شفق دھوپ تھی،سجل شامیں
اِنھی دنوں میں مِرا تجھ سے رابطہ ہوا تھا

سو مَیں نے بات بدل دی گلے لگا کے اُسے
دُرست شخص غلط بات پر اڑا ہوا تھا

میرے خلاف تیرے کان کیوں نا بھرتے یہ لوگ
تیری جبیں پہ میرا نام جو لکھا ہوا تھا

سو ماں کی قبر پہ پہنچا لپٹ کے رونے لگا
دلیر بیٹا کسی بات پر دکھا ہوا تھا

ہم ایک ساتھ تھے اور اپنی اپنی نیند میں تھے
وہ سو رہی تھی علی اور میں۔۔۔ مرا ہوا تھا

Leave a Comment
%d bloggers like this: