Skip to content

Month: January 2020

وە گماں ! گماں سا قیاس سا

وە گماں ! گماں سا قیاس سا
کبھی دور سا کبھی پاس سا

کبھی چاندنی میں چھپا ہوا
کبھی خوشبووں میں بسا ہوا

کبھی صرف اسکی شباہتیں
کبھی صرف اسکی حکایتیں

کبھی صرف ملنے کے سلسلے
کبھی صرف اس سے ہیں فاصلے

کبھی دور چلتی ہواوُں میں
کبھی مینہ برستی گھٹاوں میں

کبھی بدگماں کبھی مہرباں
کبھی دھوپ ہے کبھی سائیباں

کبھی بند دل کی کتاب میں
کبھی لب کشاں وە خواب میں

کبھی یوں کہ جیسے سوال ہو
کبھی یوں کہ جیسے جواب ہو

کبھی دیکھنے کے ہیں سلسلے
کبھی سوچنے کے ہیں مرحلے

کبھی صرف رنگِ بہار سا
کبھی صرف اک گلبہار سا

وە جو اکھڑا اکھڑا سا شخص ہے
وە جو بکھرا بکھرا سا شخص ہے

Leave a Comment

آپ کو دیکھ کر دیکھتا رہ گیا

آپ کو دیکھ کر دیکھتا رہ گیا
کیا کہوں ، اور کہنے کو کیا رہ گیا

ان کی آنکھوں سے کیسے چھلکنے لگا
میرے ہونٹوں پہ جو ماجرا رہ گیا

ایسے بچھڑے سبھی رات کے موڑ پر
آخری ہمسفر — راستہ رہ گیا

سوچ کر آؤ ، کوئے تمنا گلی
جان من ! جو یہاں، رہ گیا ۔۔۔رہ گیا

وسیم بریلوی

Leave a Comment

عجیب خواب تھا اس کے بدن میں کائی تھی

عجیب خواب تھا اس کے بدن میں کائی تھی
وہ اک پری جو مجھے سبز کرنے آئی تھی

وہ اک چراغ کدہ جس میں کچھ نہیں تھا مرا
جو جل رہی تھی وہ قندیل بھی پرائی تھی

نہ جانے کتنے پرندوں نے اس میں شرکت کی
کل ایک پیڑ کی تقریب رو نمائی تھی

ہواؤ آؤ مرے گاؤں کی طرف دیکھو
جہاں یہ ریت ہے پہلے یہاں ترائی تھی

کسی سپاہ نے خیمے لگا دیے ہیں وہاں
جہاں پہ میں نے نشانی تری دبائی تھی

گلے ملا تھا کبھی دکھ بھرے دسمبر سے
مرے وجود کے اندر بھی دھند چھائی تھی

تہذیب حافی

Leave a Comment

صدائے عشق ہوں نظرانہ دل لے کے آیا ہوں

صدائے عشق ہوں نظرانہ دل لے کے آیا ہوں
یہی ایک چیز تھی لانے کے قابل، لے کے آیا ہوں

زہ جذب و کشش یہ ہوش تک باقی نہیں مجھ کو
مجھے دل لے کے آیا ہے یا میں دل لے کے آیا ہوں

Leave a Comment

‏خواب کے گاؤں میں پلے ہیں ہم

‏خواب کے گاؤں میں پلے ہیں ہم
پانی چھلنی میں لے چلے ہیں ہم

چھاچھ پھونکیں کہ اپنے بچپن میں
دودھ سے کس طرح جلے ہیں ہم

خود ہیں آپنے سفر کی دشواری
آپنے پیروں کے آبلے ہیں ہم

تو تو مت کہہ ہمیں برا دنیا
تو نے ڈھالا ہے اور ڈھلے ہیں ہم

Leave a Comment

میں لاکھ ملامت سہہ کر بھی

میں لاکھ ملامت سہہ کر بھی ، ترے ساتھ رہا ترا یار رہا
میں نے مُڑ کے نہیں دیکھا اُس کو، تجھے جس جس سے انکار رہا

جو لفظ کا پیشہ کرتے تھے ، مصروف رہے مشہور ہوئے
! تری یاد مِری مزدوری تھی ! میں جیون بھر بیکار رہا

Leave a Comment
%d bloggers like this: