Skip to content

Month: December 2019

تنہا تنہا ہم رولیں گے

تنہا تنہا ہم رولیں گے، محفل محفل گائیں گے
جب تک آنسو ساتھ رہیں گے تب تک گیت سنائیں گے

تم جو سوچو، وہ تم جانو، ہم تو اپنی کہتے ہیں
دیر نہ کرنا گھر جانے میں ورنہ گھر کھوجائیں گے

بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر وہ بھی ہم جیسے ہوجائیں گے

کن راہوں سے دور ہے منزل، کون سا رستہ آساں ہے
ہم جب تھک کر رک جائیں گے، اوروں کو سمجھائیں گے

اچھی صورت والے سارے پتھر دل ہوں، ممکن ہے
ہم تو اس دن رائے دیں گے جس دن دھوکہ کھائیں گے

ندا فاضلی

Leave a Comment

کبھی وہ وقت نہ آئے جو تجھ کو راس نہ ھو

کبھی وہ وقت نہ آئے جو تجھ کو راس نہ ھو
خُدا کرے کہ ترا دِل کبھی اُداس نہ ھو ۔۔۔
رھے نہ تشنۂ تعبیر کوئی خواب ترا ۔۔۔۔۔۔
کوئی کسک نہ ھو ، کوئی ادھوری آس نہ ھو
ھمیشہ لُطف و طرب ترے اِرد گرد رھیں
کوئی بھی لمحۂ غم تیرے آس پاس نہ ھو
تری دُعاوں پہ برسے قبولیت کی پھوار ۔۔۔
تری بڑی بڑی آنکھوں میں کوئی یاس نہ ھو
خُدا کرے کہ تری زندگی سے دُور رھے
ھر ایسا شخص کہ جو تیرا غم شناس نہ ھو
تری جبیں پہ سدا مہربان نُور رھے
اندھیرا تیری نظر سے ھمیشہ دور رھے
رحمان فارس

Leave a Comment

مرے ہم سفر‘ تجھے کیا خبر

مرے ہم سفر‘ تجھے کیا خبر
یہ جو وقت ہے کسی دُھوپ چھاؤں کے کھیل سا
اِسے دیکھتے‘ اِسے جھیلتے
مِری آنکھ گرد سے اَٹ گئی
مِرے خواب ریت میں کھوگئے
مِرے ہاتھ برف سے ہوگئے
مِرے بے خبر‘ ترے نام پر
وہ جو پُھول کھلتے تھے ہونٹ پر
وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر‘
وہ نہیں رہے
وہ نہیں رہے کہ جو ایک ربط تھا درمیاں وہ بکھر گیا
وہ ہَوا چلی
کسی شام ایسی ہَوا چلی
کہ جو برگ تھے سرِ شاخِ جاں‘ وہ گرادیئے
وہ جو حرف درج تھے ریت پر‘ وہ اُڑا دیئے
وہ جو راستوں کا یقین تھے
وہ جو منزلوں کے امین تھے
وہ نشانِ پا بھی مِٹا دیئے!
مرے ہم سفر‘ ہے وہی سفر
مگر ایک موڑ کے فرق سے
ترے ہاتھ سے مرے ہاتھ تک
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
کئی موسموں میں بدل گیا
اُسے ناپتے‘ اُسے کاٹتے
مرا سارا وقت نکل گیا
تو مِرے سفر کا شریک ہے
میں ترے سفر کا شریک ہوں
پہ جو درمیاں سے نکل گیا
اُسی فاصلے کے شمار میں
اُسی بے یقیں سے غبار میں
اُسی رہگزر کے حصار میں
ترا راستہ کوئی اور ہے
مرا راستہ کوئی اور ہے

Leave a Comment

یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا

یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

ہر اک جسم گھائل ہر اک روح پیاسی
نگاہوں میں الجھن دلوں میں اداسی
یہ دنیا ہے یا عالم بد حواسی
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

یہاں اک کھلونا ہے انساں کی ہستی
یہ بستی ہے مردہ پرستوں کی بستی
یہاں پر تو جیون سے ہے موت سستی
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

جوانی بھٹکتی ہے بد کار بن کر
جواں جسم سجتے ہیں بازار بن کر
یہاں پیار ہوتا ہے بیوپار بن کر
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

یہ دنیا جہاں آدمی کچھ نہیں ہے
وفا کچھ نہیں دوستی کچھ نہیں ہے
جہاں پیار کی قدر ہی کچھ نہیں ہے
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

جلا دو اسے پھونک ڈالو یہ دنیا
مرے سامنے سے ہٹا لو یہ دنیا
تمہاری ہے تم ہی سنبھالو یہ دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

ساحر لدھیانوی

Leave a Comment

تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے

تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے

جنوں میں جتنی بھی گزری بیکار گزری ہے
اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے

ہوئی ہے حضرت ناصح سے گفتگو جس شب
وہ شب ضرور سرِ کوۓ یار گزری ہے

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیں
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

نہ گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے

چمن میں غارت گلچیں پہ جانے کیا گزری
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے

فیض احمد فیض

Leave a Comment

ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیشِ جہاں کا دوام

ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیشِ جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام ، وائے تمنائے خام

پیرِ حرم نے کہا سن کے مری روئداد
پختہ ہے تیری فغاں ، اب نہ اسے دل میں تھام

تھا ارنی گو کلیم ، میں ارنی گو نہیں
اس کو تقاضا روا ، مجھ پہ تقاضا حرام

گرچہ ہے افشائے راز ، اہل نظر کی فغاں
ہو نہیں سکتا کبھی شیوۂِ رندانہ عام

حلقۂِ صوفی میں ذکر بے نم و بے سوز و ساز
میں بھی رہا تشنہ کام تو بھی رہا تشنہ کام

عشق تری انتہا عشق مری انتہا
تو بھی ابھی ناتمام میں بھی ابھی ناتمام

آہ کہ کھویا گیا تجھ سے فقیری کا راز
ورنہ ہے مالِ فقیر سلطنتِ روم و شام

علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ علیہ
کتاب: بالِ جبریل
(فرانس میں لکھے گئے)

Leave a Comment

ایسا نہیں کہ ہم کو محبت نہیں مِلی​

ایسا نہیں کہ ہم کو محبت نہیں مِلی​
ہم جیسی چاہتے تھے وہ قُربت نہیں مِلی​

ملنے کو زندگی میں کئی ہمسفر ملے​
لیکن طبیعتوں سے طبیعت نہیں ملی​

چہروں کے ہر ہجوم میں ہم ڈُھونڈتے رہے​
صُورت نہیں ملی کہیں سیرت نہیں ملی​

وہ یک بیک ملا تو بہت دیر تک ہمیں​
الفاظ ڈُھونڈنے کی بھی مُہلت نہیں ملی​

اُس کو گِلہ رہا کہ توجہ نہ دی اُسے​
لیکن ہمیں خُود اپنی رفاقت نہیں ملی​

ہر شخص زندگی میں بہت دیر سے مِلا​
کوئی بھی چیز حسبِ ضرُورت نہیں ملی​

( اعتبار ساجد )

Leave a Comment
%d bloggers like this: