میں پہلی بار کبھی منکشف نہیں ہوتا
!..مثالِ حرفِ مشدد ہوں ،پھر پڑھو مجھ کو
Collection Of Your Favorite Poets
میں پہلی بار کبھی منکشف نہیں ہوتا
!..مثالِ حرفِ مشدد ہوں ،پھر پڑھو مجھ کو
تنہا تنہا ہم رولیں گے، محفل محفل گائیں گے
جب تک آنسو ساتھ رہیں گے تب تک گیت سنائیں گے
تم جو سوچو، وہ تم جانو، ہم تو اپنی کہتے ہیں
دیر نہ کرنا گھر جانے میں ورنہ گھر کھوجائیں گے
بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر وہ بھی ہم جیسے ہوجائیں گے
کن راہوں سے دور ہے منزل، کون سا رستہ آساں ہے
ہم جب تھک کر رک جائیں گے، اوروں کو سمجھائیں گے
اچھی صورت والے سارے پتھر دل ہوں، ممکن ہے
ہم تو اس دن رائے دیں گے جس دن دھوکہ کھائیں گے
ندا فاضلی
Leave a Commentکبھی وہ وقت نہ آئے جو تجھ کو راس نہ ھو
خُدا کرے کہ ترا دِل کبھی اُداس نہ ھو ۔۔۔
رھے نہ تشنۂ تعبیر کوئی خواب ترا ۔۔۔۔۔۔
کوئی کسک نہ ھو ، کوئی ادھوری آس نہ ھو
ھمیشہ لُطف و طرب ترے اِرد گرد رھیں
کوئی بھی لمحۂ غم تیرے آس پاس نہ ھو
تری دُعاوں پہ برسے قبولیت کی پھوار ۔۔۔
تری بڑی بڑی آنکھوں میں کوئی یاس نہ ھو
خُدا کرے کہ تری زندگی سے دُور رھے
ھر ایسا شخص کہ جو تیرا غم شناس نہ ھو
تری جبیں پہ سدا مہربان نُور رھے
اندھیرا تیری نظر سے ھمیشہ دور رھے
رحمان فارس
مرے ہم سفر‘ تجھے کیا خبر
یہ جو وقت ہے کسی دُھوپ چھاؤں کے کھیل سا
اِسے دیکھتے‘ اِسے جھیلتے
مِری آنکھ گرد سے اَٹ گئی
مِرے خواب ریت میں کھوگئے
مِرے ہاتھ برف سے ہوگئے
مِرے بے خبر‘ ترے نام پر
وہ جو پُھول کھلتے تھے ہونٹ پر
وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر‘
وہ نہیں رہے
وہ نہیں رہے کہ جو ایک ربط تھا درمیاں وہ بکھر گیا
وہ ہَوا چلی
کسی شام ایسی ہَوا چلی
کہ جو برگ تھے سرِ شاخِ جاں‘ وہ گرادیئے
وہ جو حرف درج تھے ریت پر‘ وہ اُڑا دیئے
وہ جو راستوں کا یقین تھے
وہ جو منزلوں کے امین تھے
وہ نشانِ پا بھی مِٹا دیئے!
مرے ہم سفر‘ ہے وہی سفر
مگر ایک موڑ کے فرق سے
ترے ہاتھ سے مرے ہاتھ تک
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
کئی موسموں میں بدل گیا
اُسے ناپتے‘ اُسے کاٹتے
مرا سارا وقت نکل گیا
تو مِرے سفر کا شریک ہے
میں ترے سفر کا شریک ہوں
پہ جو درمیاں سے نکل گیا
اُسی فاصلے کے شمار میں
اُسی بے یقیں سے غبار میں
اُسی رہگزر کے حصار میں
ترا راستہ کوئی اور ہے
مرا راستہ کوئی اور ہے
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
ہر اک جسم گھائل ہر اک روح پیاسی
نگاہوں میں الجھن دلوں میں اداسی
یہ دنیا ہے یا عالم بد حواسی
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
یہاں اک کھلونا ہے انساں کی ہستی
یہ بستی ہے مردہ پرستوں کی بستی
یہاں پر تو جیون سے ہے موت سستی
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
جوانی بھٹکتی ہے بد کار بن کر
جواں جسم سجتے ہیں بازار بن کر
یہاں پیار ہوتا ہے بیوپار بن کر
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
یہ دنیا جہاں آدمی کچھ نہیں ہے
وفا کچھ نہیں دوستی کچھ نہیں ہے
جہاں پیار کی قدر ہی کچھ نہیں ہے
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
جلا دو اسے پھونک ڈالو یہ دنیا
مرے سامنے سے ہٹا لو یہ دنیا
تمہاری ہے تم ہی سنبھالو یہ دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
ساحر لدھیانوی
Leave a Commentتم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے
جنوں میں جتنی بھی گزری بیکار گزری ہے
اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے
ہوئی ہے حضرت ناصح سے گفتگو جس شب
وہ شب ضرور سرِ کوۓ یار گزری ہے
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیں
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
نہ گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
چمن میں غارت گلچیں پہ جانے کیا گزری
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے
فیض احمد فیض
Leave a Commentاَب کے تُو اس طرح سے یاد آیا
جِس طرح دشت میں گھنے سائے
جیسے دھُندلے سے آئینے کے نقوش
جیسے صدیوں کی بات یاد آئے
ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیشِ جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام ، وائے تمنائے خام
پیرِ حرم نے کہا سن کے مری روئداد
پختہ ہے تیری فغاں ، اب نہ اسے دل میں تھام
تھا ارنی گو کلیم ، میں ارنی گو نہیں
اس کو تقاضا روا ، مجھ پہ تقاضا حرام
گرچہ ہے افشائے راز ، اہل نظر کی فغاں
ہو نہیں سکتا کبھی شیوۂِ رندانہ عام
حلقۂِ صوفی میں ذکر بے نم و بے سوز و ساز
میں بھی رہا تشنہ کام تو بھی رہا تشنہ کام
عشق تری انتہا عشق مری انتہا
تو بھی ابھی ناتمام میں بھی ابھی ناتمام
آہ کہ کھویا گیا تجھ سے فقیری کا راز
ورنہ ہے مالِ فقیر سلطنتِ روم و شام
علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ علیہ
کتاب: بالِ جبریل
(فرانس میں لکھے گئے)
اس ایک شخص میں تھیں دلربائیاں کیاکیا
ہــــزارلـوگ ملیں گے، مـــگرکہاں وہ شخص!
قتیل شفائی
Leave a Comment