Skip to content

Month: November 2019

بہار رُت میں اجاڑ رستے

بہار رُت میں اجاڑ رستے تکا کرو گے تو رو پڑو گے
کسی سے ملنے کو جب بھی محسن سجا کرو گے تو رو پڑو گے

تمہارے وعدوں نے یار مجھ کو تباہ کیا ہے کچھ اس طرح سے
کہ زندگی میں جو پھر کسی سے دغا کرو گے تو رو پڑو گے

میں جانتا ہوں میری محبت اجاڑ دے گی تمہیں بھی ایسے
کہ چاند راتوں میں اب کسی سے ملا کرو گے تو رو پڑو گے

برستی بارش میں یاد رکھنا تمہیں ستائیں گی میری آنکھیں
کسی ولی کے مزار پر جب دعا کرو گے تو رو پڑو گے

محسن نقوی

Leave a Comment

مجھ سے اونچا ترا قد ہے، حد ہے

مجھ سے اونچا ترا قد ہے، حد ہے
پھر بھی سینے میں حسد ہے؟ حد ہے

میرے تو لفظ بھی کوڑی کے نہیں
تیرا نقطہ بھی سند ہے، حد ہے

تیری ہر بات ہے سر آنکھوں پر
میری ہر بات ہی رد ہے، حد ہے

عشق میری ہی تمنا تو نہیں
تیری نیت بھی تو بد ہے، حد ہے

زندگی کو ہے ضرورت میری
اور ضرورت بھی اشد ہے، حد ہے

بے تحاشہ ہیں ستارے لیکن
چاند بس ایک عدد ہے، حد ہے

اشک آنکھوں سے یہ کہہ کر نکلا
یہ ترے ضبط کی حد ہے؟ حد ہے

روک سکتے ہو تو روکو جاذلؔ
یہ جو سانسوں کی رسد ہے، حد ہے

Leave a Comment

پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں

پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں

راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا

ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار

لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ

سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار

اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ

گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ

اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو

اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا

فیض احمد فیض

Leave a Comment

ﺍِﺗﻨﺎ ﺑﮑﮭﺮﺍ ﮨﻮﮞ

ﺍِﺗﻨﺎ ﺑﮑﮭﺮﺍ ﮨﻮﮞ ﺍِﮐﭩﮭّﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﺍﺏ ﺗُﺠﮭﮯ ﭼُﮭﻮ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭼﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﮮ ﺯﻧﺠﯿﺮ ﻣِﺮﮮ ﭘﺎﺅﮞ ﮐﯽ
ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺍﺏ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﺷﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﻣﺮ ﮔﺌﯽ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺷﻌﺮ ﻣﺰﺍﺟﯽ ﻣﯿﺮﯼ
ﺍﺏ ﺗُﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ ﻣﺼﺮﻉ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﺩُﮐﮫ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣِﺮﯼ ﺳﺎﻧﺲ ﭘﮧ ﻗﺎﺑﺾ ﮨﻮﺍ ﺷﺨﺺ
ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ

Leave a Comment

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم

خموشی سے ادا ہو رسمِ دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم

یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم

وفا، اخلاص، قربانی،مرو ّت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم

سنا دیں عصمتِ مریم کا قصّہ؟
پر اب اس باب کو وا کیوں کریں ہم

زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے
بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کری ہم

ہماری ہی تمنّا کیوں کرو تم
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم

کیا تھا عہد جب لحموں میں ہم نے
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم

اُٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں
فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم

جو اک نسل فرومایہ کو پہنچے
وہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم

نہیں دُنیا کو جب پرواہ ہماری
تو پھر دُنیا کی پرواہ کیوں کریں ہم

برہنہ ہیں سرِبازار تو کیا
بھلا اندھوں سے پردا کیوں کریں ہم

ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی
سو خود پر بھی بھروسہ کیوں کریں ہم

پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں
زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم

یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم

Leave a Comment

دلِ شکستہ

دلِ شکستہ سے یُوں جا رہی ہے اُن کی یاد
مکیں کو جیسے ہو ٹُوٹے ہُوئے مکاں سے گریز

خُدا کی شان! تجھے یُوں مری فُغاں سے گریز
کہ جس طرح ،کسی کافر کو ہو اذاں سے گریز

جہاں وہ چاہیں قمؔر شوق سے ہمیں رکھیں
زمیں سے ہم کو گریز اور نہ آسماں سے گریز

Leave a Comment

لاکھ تم اشک چھپاؤ

لاکھ تم اشک چھپاؤ، ہنسی میں بہلاؤ
چشمِ نمناک بتاتی ہے کہ تم روئے ہو

یہ جو رُخ موڑ کے تم نے کہا نا، “ٹھیک ہوں میں
مجھے آواز بتاتی ہے کہ تم روئے ہو

جو اُترتی ہے “مری” آنکھ میں گاہے گاہے
وہ نمی صاف بتاتی ہے کہ “تم” روئے ہو

چاند چُپ ہے، مگر… بھیگی ہوئی سرگوشی میں
چاندنی رات بتاتی ہے کہ تم روئے ہو

میں تجھے جیت کے ہارا، تری خوشیوں کے لیے
پر مری مات بتاتی ہے کہ تم روئے ہو

یہ جو بے موسمی برسات برستی ہے وصی
راز کی بات بتاتی ہے کہ تم روئے ہو

Leave a Comment
%d bloggers like this: