زندگی ، در بدر لئے پھـِرتی ھے بوجھـــل بدن
کہ روح گِــروی پــڑی ھے آستــانہء حیات پر
Leave a Commentزندگی ، در بدر لئے پھـِرتی ھے بوجھـــل بدن
کہ روح گِــروی پــڑی ھے آستــانہء حیات پر
Leave a Commentمیں کہاں تیری داستاں سے الگ؟
کچھ نہیں ُدھول، کارواں سے الگ!
چاند کتنا عزیز تھا ُاس کو__!
رات ٹھہری میرے مکاں سے الگ
فصلِ ُگل میں بھی پھول ُمرجھائے
اک خزاں اور ہے خزاں سے الگ
میرے قاتل نظر نہ آ مجھ کو،
برق رہتی ہے آشیاں سے الگ
سر کو سودائے سنگ ہے لیکن
سنگ ہو تیرے آستاں سے الگ؟
دو جہاں چھوڑ کر ِملو ُاس سے
وہ کہ رہتا ہے دو جہاں سے الگ
آؤ آپس میں فیصلہ کر لیں
کس کو ہونا ہے اب کہاں سے الگ؟
دل میں ُاترا تھا جو کبھی محسنؔ
وہ ستارا تھا آسماں سے الگ _!
“محسن نقوی”
Leave a Commentکاغذ اُتے لیک لیک کے پُٹھیاں سِدھیاں لیکاں
ھور دھیانے پائیاں ھوئیاں میں اندر دیاں چیکاں
حسنِ دلکش کے مضافات میں رہنے والے،
ہم ہیں بے وجہ فسادات میں رہنے والے،
دیکھ ٹپ ٹپ کے ترنم کا مزہ لیتے ہوئے،
کتنے خوش باش ہیں برسات میں رہنے والے،
ہم اسے چاہنے والے تھے، مگر، یاد آیا،
اپنے آبا تو تھے اوقات میں رہنے والے،
اتنے مانوس ہیں تاریکی ء شب سے یارو،
دن نکلنے ہی نہ دیں رات میں رہنے والے،
آنکھ جو دیکھتی ہے سچ ہو، ضروری تو نہیں،
ساتھ ہوتے ہیں کہاں ساتھ میں رہنے والے،
دین سے دور ہوئے جاتے ہیں لمحہ لمحہ،
ہم زمانے کی رسومات میں رہنے والے،
خامشی اتنی پسند آئی اس آوارہ کی،
بات سے روٹھ گئے بات میں رہنے والے،
پیار سے توبہ کی ، آزاد ہوئے، صدقہ دیا ،
پھر ہنسے، ہجر کے خدشات میں رہنے والے،
کسی نے کیا وجود پہ جھیلی ہوئی ہے رات
مرے تمام کرب سے کھیلی ہوئی ہے رات
اماوس میں چاند دور کہیں پہ چھپ گیا
اس پل پھر آسماں کی سہیلی ہوئی ہے رات
دن کے اجالے میں چھپ ہی نہیں سکیں
ایسے گناہ سمیٹ پہیلی ہوئی ہے رات
دیوار شب کے پار لمس کی عنایتیں
مانند گلاب عطر وچنبیلی ہوئی ہے رات
دن بھر وصل کی آہٹیں دل کو سنائی دیں
غم ہجر میں کسی نے دھکیلی ہوئی ہے رات
ثروت
Leave a Commentبہت اداس ہے کوئی
تیرے روٹھ جانے سے
کبھی تو پکار
کسی بھی بہانے سے
وہ جنون کہیں جو نہ مٹ سکے
جو نہ مل سکے وہ قرار دے
میں اصولِ عشق کی بساط ہوں
تو غرورِ عشق سے مات دے
قفس کا عادی تھا کمبخت
!… رہائ پائ ، تو جی نہ سکا
ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻣﺴﺦ ﺷﺪﮦ ﻟﻔﻆ ﻣﯿﮟ ﺟﻠﺘﺎ ﺳﭻ ﮨﻮﮞ
!… ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻣﺮﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺧﺎﮎ ﭘﮧ ﺭﻭﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺧﻮﺍﺏ