Skip to content

Month: November 2019

میں کہاں تیری داستاں سے الگ؟

میں کہاں تیری داستاں سے الگ؟
کچھ نہیں ُدھول، کارواں سے الگ!
چاند کتنا عزیز تھا ُاس کو__!
رات ٹھہری میرے مکاں سے الگ

فصلِ ُگل میں بھی پھول ُمرجھائے
اک خزاں اور ہے خزاں سے الگ
میرے قاتل نظر نہ آ مجھ کو،
برق رہتی ہے آشیاں سے الگ

سر کو سودائے سنگ ہے لیکن
سنگ ہو تیرے آستاں سے الگ؟
دو جہاں چھوڑ کر ِملو ُاس سے
وہ کہ رہتا ہے دو جہاں سے الگ

آؤ آپس میں فیصلہ کر لیں
کس کو ہونا ہے اب کہاں سے الگ؟
دل میں ُاترا تھا جو کبھی محسنؔ
وہ ستارا تھا آسماں سے الگ _!

“محسن نقوی”

Leave a Comment

حسنِ دلکش کے مضافات میں

حسنِ دلکش کے مضافات میں رہنے والے،
ہم ہیں بے وجہ فسادات میں رہنے والے،

دیکھ ٹپ ٹپ کے ترنم کا مزہ لیتے ہوئے،
کتنے خوش باش ہیں برسات میں رہنے والے،

ہم اسے چاہنے والے تھے، مگر، یاد آیا،
اپنے آبا تو تھے اوقات میں رہنے والے،

اتنے مانوس ہیں تاریکی ء شب سے یارو،
دن نکلنے ہی نہ دیں رات میں رہنے والے،

آنکھ جو دیکھتی ہے سچ ہو، ضروری تو نہیں،
ساتھ ہوتے ہیں کہاں ساتھ میں رہنے والے،

دین سے دور ہوئے جاتے ہیں لمحہ لمحہ،
ہم زمانے کی رسومات میں رہنے والے،

خامشی اتنی پسند آئی اس آوارہ کی،
بات سے روٹھ گئے بات میں رہنے والے،

پیار سے توبہ کی ، آزاد ہوئے، صدقہ دیا ،
پھر ہنسے، ہجر کے خدشات میں رہنے والے،

Leave a Comment

کسی نے کیا وجود پہ

کسی نے کیا وجود پہ جھیلی ہوئی ہے رات
مرے تمام کرب سے کھیلی ہوئی ہے رات

اماوس میں چاند دور کہیں پہ چھپ گیا
اس پل پھر آسماں کی سہیلی ہوئی ہے رات

دن کے اجالے میں چھپ ہی نہیں سکیں
ایسے گناہ سمیٹ پہیلی ہوئی ہے رات

دیوار شب کے پار لمس کی عنایتیں
مانند گلاب عطر وچنبیلی ہوئی ہے رات

دن بھر وصل کی آہٹیں دل کو سنائی دیں
غم ہجر میں کسی نے دھکیلی ہوئی ہے رات

ثروت

Leave a Comment
%d bloggers like this: