ہم شاہ جہاں کے ہتھ کٹے مزدور تک گئے
فاقہ اور فکر ایک ساتھ تندور تک گئے
موسیٰ کے سوا کوئی بھی زندہ نہی بچا
جو لوگ خدا دیکھنے کوہِ طور تک گئے
اندھیرے میں اندھیرا ہی میرا ساتھی تھا
ہم روشنی کے دھوکے میں بڑی دور تک گئے
مولا تیری دنیا میں تجھے ہر جگہ ڈھونڈا
جب خود میں ہم اترے تو تیرے نور تک گئے
پھانسی کا اعلان جب مسجد میں ہوا تھا
پھر دیکھنے مجھے چوک میں معذور تک گئے
کچھ نے اسے کافر کہا کچھ نے شہیدِ حق
ہم حق کا ظرف کھوجنے منصور تک گئے
ہم لوگ ہوس زادے ہیں اسی واسطے حیدر
ہم لوگ تو جنت میں بھی بس حور تک گئے
Be First to Comment