بے داد و جور و لطف و ترحم سے کیا غرض
تم کو غرض نہیں، تو ہمیں تم سے کیا غرض
کیوں ہم شبِ فراق میں تارے گنا کریں
ہم کو شمارِ اختر و انجم سے کیا غرض
کوئی ہنسا کرے، تو بلا سے ہنسا کرے
کیوں دل جلائیں، برقِ تبسم سے کیا غرض
لیتے ہیں جاں نثار کوئی منتِ مسیح
جو ہو شہیدِ عشق اسے قم سے کیا غرض
جو خاکسارِ عشق ہیں ملتے ہیں خاک میں
اہل زمیں کو چرخِ چہارم سے کیا غرض
دل طرزِ انجمن ہی سے بیزار ہوگیا
مطلب ہمیں شراب سے کیا، خم سے کیا غرض
کیوں بزمِ عیش چھوڑ کے بزمِ عزا میں آئیں
ان کو ہمارے پھولوں سے، چہلم سے کیا غرض
روزِ ازل سے پاک ہیں رندانِ بے ریا
ان کو وضو سے اور تیمم سے کیا غرض
شیدائیوں کو عزتِ دنیا سے ننگ ہے
دیوانے کو ملامتِ مردم سے کیا غرض
معشوق سے امیدِ کرم؟ داغؔ خیر ہے
اس بندۂ خدا کو ترحم سے کیا غرض
داغؔ دہلوی
Be First to Comment