بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے
دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں
تُند ہیں شعلے ،،، سرخ ہے آہن
کُھلنے لگے ہیں قفلوں کے دہانے
پھیلا ہے ہر اک زنجیر کا دامن
بول کہ یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
فیض احمد فیض
Be First to Comment