Skip to content

اَشک دَر اَشک

اَشک دَر اَشک ، دُہائی کا ثمر دیتے ہیں
اُن کے آثار ، جدائی کی خبر دیتے ہیں

غالباً یہ مرے چپ رہنے کا خمیازہ ہے
تجھ کو آواز مرے شام و سَحَر دیتے ہیں

جان دے جانے کا جو پختہ اِرادہ کر لوں
جان ‘‘ کہہ کر مجھے بے جان سا کر دیتے ہیں

لفظ مردہ ہیں ، لغت کوئی اُٹھا کر دیکھو
صرف جذبات ہی لفظوں کو اَثر دیتے ہیں

ایک گمنام اُداسی نے مجھے گھیر لیا
آج وُہ ہنستے ہُوئے اِذنِ سفر دیتے ہیں

چند اِحباب ، مسیحائی کی قسمیں کھا کر
زَخم کو کھود کے ، بارُود سا بھر دیتے ہیں

قیسؔ دِل کا نہ تعلق بنے جن لوگوں سے
ساتھ سو شرطوں پہ دیتے ہیں ، اَگر دیتے ہیں

Published inGazalsSad PoetryUncategorized

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: