قلم کو بابِ تمنا پہ دَھر کے دیکھتے ہیں
خُمِ فراز سے اِک جام بھر کے دیکھتے ہیں
حیا کی برق دَرخشاں ہے شوخ آنکھوں میں
جواہرات کرشمے گہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دِیویاں اُس کی کنیزِ اَدنیٰ ہیں
خزینے پاؤں تلے خشک و تر کے دیکھتے ہیں
جو اُس کی ظاہری معصومیت پہ واریں دِل
تمام عمر ، ضرر ، بے ضرر کے دیکھتے ہیں
وُہ جس پہ مرتا ہے آخر وُہ چیز کیا ہو گا
ہم اُس کے دِل میں کسی دِن اُتر کے دیکھتے ہیں
وُہ خواب ہے کہ فُسوں ، جن ، پری کہ جانِ جُنوں
سب اُس کے حُسن کو تھوڑا سا ڈَر کے دیکھتے ہیں
جلالِ حُسن پہ حیرت سے دَنگ اِہلِ سُخن
قلم زَمین پہ اِہلِ نظر کے دیکھتے ہیں
ہمیشہ زُعم سے اُس پر غزل شروع کی قیس
ہمیشہ بے بسی پہ ختم کر کے دیکھتے ہیں
Be First to Comment