ہلکا سا تبسم ترے لب ہائے حَسیں پر
مجبور نہ کر مُجھ کو مَحبّت کے یقیں پر
اے تو! کہ شرارت سے نہیں پاؤں زمیں پر
تھوڑی سی عنایت بھی کسی خاک نشین پر
حق ہے کہ ستاؤ مگر اتنا نہ ستاؤ
پڑ جائے مری آنکھ کسی اور حَسیں پر
حالات جدائی الم انگیز نہیں ہیں
لکھا ہے ترا نام مری لوحِ جبیں پر
یہ بھیگی ہوئی رات یہ کیفیتِ عرفاں
چاہوں تو ستارے بھی اتر آئیں زمیں پر
ہاں ہم نے ہی کھائے ہیں دلِ زار پہ چرکے
ہم قتل بھی ہو جائیں تو الزام ہمیں پر
لہجے کی درشتی لبِ نازک پہ گراں ہے
اوراقِ سمَن صَرف نہ کر لفظِ ‘نہیں’ پر
وہ میرے لیے موردِ الزام محبّت
آتا ہے ترس شاد مجھے حُسنِ حَزیں پر
شاد عارفی
Be First to Comment